دکھ میانوالی کے
دکھ میانوالی کے
اعتراض کا جواب
ظفر خان نیازی
محترم عبدالقادر صاحب !
آپ نے کہا ہے کہ میانوالی والے سارے ملک میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں – ان کے پاکستان بھر میں پٹرول پمپ ہیں – اس لئے انہیں جی ٹی ورڈ پر نہ ہونے گلہ کیوں ہے
دوسرے یہ کہ میانوالی کے لوگ اپنے شہر کی خود خدمت کیوں نہیں کرتے –
اور سب سے اہم سوال یہ کہ میں نے ریٹائر ہونے کے بعد میانوالی جا کر اس شہر کی خدمت کیوں نہیں کی –
آپ کے سوال کے آخری حصے کا جواب میں پہلے عرض کر دوں –
ایم ایس سی کرنے کے بعد ہم چند دوستوں نے میانوالی کی حالت بدلنے کیلئے ایک عملی قدم اٹھایا – ہمارا خیال تھا کہ تعلیم کی اشاعت سے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئے گی – سو ہم دس بارہ اعلے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مل کر اسلامیہ کالج کھولا – یہ سن 1971 کی بات ہے – یہ کالج چل پڑا ، کامیابی نظر آنے لگی لیکن پیسے نہ ہونے کے برابر تھے – سو کوالیفائیڈ ساتھی ایک ایک کر کے جانے لگے – خود میرا یہ حال ، کہ ایک بیوہ ماں نے مجھے پالا ، مالی مجبوریوں کی وجہ سے میں بھی بہت عرصہ اس کالج کے ساتھ نہ چل سکا – ہم سے تو بلڈنگ کا کرایہ پورا کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا – اس کے علاوہ سیاسی عناصر نے اپنی نظر بھی ہم پر رکھ لی تھی – سو ہمیں وہ پراجیکٹ بادل نخواستہ چھوڑنا پڑا – ہمارے اس کالج کی بلڈنگ میں بعد میں ایک بڑا سرکاری ہائی سکول کھلا جو اب اپنی بلڈنگ میں کام کر رہا ہے –
انہی دنوں مجھے شورش کاشمیری کی کتاب پس دیوار زنداں پڑھنے کا اتفاق ہوا – یہ ان کی جیل یاترا کی کہانی ہے جس میں ایک جگہ شورش مرحوم نے لکھا ہے کہ کس طرح مختلف لوگوں کی مالی امداد سے ان کی گاڑی آگے چلی – ہمیں اس وقت اندازہ نہ تھا کہ سیاست ، جو معاشرے پر اثر انداز ہونے کا سب سے بڑا ڈریعہ ہے ، ایک پیشہ بھی ہے اور سب سے زیادہ کمائی کا شارٹ کٹ بھی – اگر معلوم ہوتا تو بھی سیاست میں جس طرح پیسہ کمایا جاتا ہے ، وہ سراسر ہمارے مزاج کے خلاف تھا – سو میں نے نوکری کی تلاش شروع کی – مجھے چار سال بیروزگاری کا منہ دیکھنا پڑا – اور پھر مجھے ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر کی جاب مل گئی –
اس نوکری میں ساری زندگی ہم تو پہلی سے پہلی کا انتظار کرتے رہ گئے – سترہ اٹھارہ انیسویں یا بیسویں گریڈ کے افسر کی حلال آمدن میں سے مکان کے کرائے اور بچوں کی فیسوں کے بعد کیا بچتا ہے ، شاید آپ کو معلوم ہو – بہرحال ساری زندگی اسی طرح گزر گئی – ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اتنی نہ تھی کہ گزارا ہوتا ، آبائی زمینیں بیچ کر دن گزارے – بیٹا اب کہیں آکر کمپیوٹر گریجوایٹ ہوا ہے – شادی دیر سے کی تھی – مزید یہ کہ آبائی زمینیں بیچ کر ہی اسلام آباد میں گھر بنایا ، خوش قسمتی سے پلاٹ سرکاری مل گیا تھا –
میں شاعر اور رائٹر آدمی ہوں ، قلم ، زبان کتاب سے جو شعور کی بیداری کی کوشش کی تھی ، وہ پہلے دن سے کر رہا ہوں ، ریٹائر ہو کر یا پھر اب ستر سال کی عمر اور دل کے عارضے کے ساتھ میں اور کیا کر سکتا ہوں – مجھے اس بات کی تسلی ہے کہ چند ایک نوجوانوں کو میرے ریڈیو ہروگراموں کی وجہ سے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا –
باقی جہاں تک میانوالی کے لوگوں کے ٹرانسپورٹ بزنس کا تعلق ہے ، یہ چند گھرانے ہیں اور پٹرول پمپ تو شاید چند گھروں کے پاس بھی نہیں – میانوالی میں غربت کا جو عالم ہے اور سفید پوش جس طرح پس گئے ہیں ، اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا گیا – میانوالی شہر میں نہ کوئی انڈسٹری ہے ، نہ تجارتی منڈی – اس شہر میں تعمیرات نہ ہونے کا یہ عالم ہے کہ میانوالی کے ایک شرنارتھی لالہ روشن لال چکڑ کے ساتھ ان کا چھوٹا بھائی میانوالی 55 سال کے بعد اپنے آبائی وطن میانوالی آیا -جب وہ یہاں سے گیا تھا ، اس کی عمر چھ سال تھی – وہ کسی کے بتائے بغیر اپنے پرانے گھر پہنچ گیا – اس عرصے میں اس شہر میں کوئی تبدیلی نہیں اسکی اور وجہ غربت ہے – پنجاب میں جو فلاح و ترقی کا کام ہوتا ہے ، اول تو اس کا فنڈ لاہور میں ہی ختم ہوجاتا ہے ، ورنہ جی ٹی روڈ پر ہی فنڈ کو بریکیں لگ جاتی ہیں –
شہر لاہور تیری سڑکیں سجانے کیلئے
گاوں اندھیاروں میں پنجاب کے ڈوبے سارے
میانوالی میں ترقی ہوئی ، چشمہ بیراج بنا تو کچھ لوگوں کو چھوٹی نوکریاں مل گئیں – لیکن اس کے بدلے میں سینکڑوں دیہات چشمہ کے زیر آب آگئے اور ایک بڑا علاقہ سیکورٹی کے حصار میں آگیا – بجلی بنتی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ بھی سب سے زیادہ وہیں ہوتی ہے – اس چشمہ بیراج کی قیمت ہمارے علاقے کو کیا چکانا پڑی ، یہ بہت زیادہ ہے – یہاں انڈے ، مرغی ، بکری کا گوشت ، گھر کا چولہا جلانے ا ایندھن اور دیسی گندم و سبزیاں ناپید ہو گئیں – لوگوں کو معاوضے میں جو رقوم ملی تھیں وہ کھا پی لی گئیں – جن کو اس کے عوض زمینیں ملک تھیں ، وہ شہر اور اکئی تو ضلع سے نکل گئے –
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بیراج کا فائدہ ملک کو ہوا ہے لیکن اس وقت علاقائی نفع نقصان کا یہ عالم ہے کہ تلہ گنگ میں ایک بارانی ڈیم بننے لگا تو وہاں کے لوگوں نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ اس سے تو میانوالی کو فائدہ ہوگا ، اور جگہ بدلنے کی مہم شروع ہو گئی – اس ڈیم پر کام کا افتتاح صدر زرداری نے تلہ گنگ آخر کیا تھا – تو میانوالی کے لوگ سوچ سکتے ہیں جس دریا سے ان کی زمینیں سیراب نہیں ہوسکتی ہیں ، !اس کے ڈیم کا ہمیں کیا فائدہ –
کمرشل دور میں تو آپ اس دریا کی مچھلی بھی اب شکار نہیں کر سکتے – پیسے کیلئے مچھلی کا بھی ٹھیکہ کر دیا جاتا ہے اور یہاں کی مچھلی دیگر اضلاع کے لوگ کھاتے ہیں جو کبھی ہمارے اجداد مفت پکڑتے تھے –
یہاں ہوائی اڈہ بنا – اس کا فائدہ یہ تو ہوا کہ پی اے ایف کالج کی بدولت اس علاقے کے کئی نوجوان ڈاکٹر اور انجینئر بن گئے لیکن شہر کا بہت بڑا علاقہ ، جنوب مشرقی حصہ آوٹ آف باونڈ ہو گیا – اس طرح مکانیت کم ہوگئی-
دریائے سندھ سے داود خیل کے مقام سے ایک نہر نکلتی ہے ، جو میانوالی سے ایک نہر گزرتی ہے – نہر تھل پراجیکٹ ، جس سے آگے چل کر چار نہریں بنتی ہیں ، اس کا پانی ، شہر اور ضلع میانوالی کیلئے ممنوع ہے – کیونکہ اس کا کوٹہ مقرر ہے –
لوکل ریل گاڑیاں بند ہو چکی ہیں – دو ایکسپریس گاڑیاں گزرتی ہیں جو پیچھے سے فل آرہی ہوتی ہیں ، اس لئے اس علاقے کیلئے بیکار ہیں – ان کے اوقات بھی آدھی رات کے ہیں جو دشمنیوں کی وجہ سے کئی لوگوں کیلئے اس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں –
میابوالی کے پی کے کا پنجاب کی طرف گیٹ وے ہے – اسوجہ سے ہیروئن کا فلو بھی یہیں سے ہے – یہ گندہ دھندہ کرکے کچھ بے ضمیر کارندے ضرور خوشحال ہیں – لیکن نوجوانوں کی اخلاقی حالت کیا ہو سکتی ہے ، وہ ظاہر ہے –
میانوالی پنجاب کا علاقہ غیر ہے – لاہور سیکریٹریٹ میں کام نکلوانے کیلئے جن پریشانیوں کا سامنا یہاں کے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے ، اس کی الگ سے دلخراش داستان ہے –
ان مایوس حالات میں اپنی بقا کی خاطر لوگ شہر چھوڑنے پر مجبور ہیں – یہ کہانی بہت طویل ہے –
نوٹ کر لیجئے کہ کسی بھی علاقے میں تبدیلی کا سب سے بڑا انسٹرومنٹ سیاست ہوتی ہے اور سیاست پہلے دن سے خود غرض لوگوں کے ہاتھ میں ہے – یہاں کے لوگ ہمت کر کے مجموعی طور پر اپوزیشن کے امیدوار کو جتوا دیتے ہیں لیکن اکیلا فرد اسمبلی میں کیا کر سکتا ہے –
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف میانوالی کی کہانی نہیں ، یہی کچھ پاکستان کے باقی سارے پسماندہ علاقوں میں ہر رہا ہے –
آئندہ کسی کو اس کی دکھ پر خود کام نہ کرنے کا طعنہ دینے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیجئے گا کہ وہ کن پانیوں سے گزر رہا ہے –
بہت شکریہ