سماجیاتمیانوالی

تعلیم یا کاروبار ۔ میانوالی سے حبیب اللہ کی تحریر

تعلیم یا کاروبار تحریر: حبیب اﷲ03145900322

وہ زمانہ بھی تھا جب سکولوں و کالجوں میں ماہر اساتذہ طالبعلموں کو محنت، لگن اور ایمانداری سے تعلیم دیا کرتے تھے۔ اساتذہ اپنے فرض کے ساتھ سو فیصد ایمانداری کرتے ہوئے تعلیم کو ٹھیک طور پرہر طالبعلم پہنچنے کو اولین ترجیح دیتے تھے۔اور طالبعلم بھی اساتذہ کو اپنے روحانی باپ کا درجہ دیتے تھے۔طالبعلم جب بھی کہیں استاد کو آتے جاتے دیکھتے تو گھبرا جاتے اور چھپنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس وقت کے استادوں کی ہر طالبعلم پر نظر ہوتی تھی اور ان کی تعلیم اور دوسری سرگرمیوں کا علم استاد کو بخوبی ہوتا تھا۔استاد کو ہر طالبعلم کو کلاس میں باقاعدہ سوال کرانے اور پھر اس کی وضاحت کرانے کا بہتر طریقہ آتا تھا۔خوش خطی کے حوالہ سے اساتذہ بہت ہی محنت سے طالبعلموں پر توجہ دیا کرتے تھے۔استاد اور طالبعلم باقاعدہ سے ہر پیریڈ اور سکول و کالج میں اپنی حاضری ضروری سمجھتے تھے۔طالبعلم چھٹی ہونے کے بعد گھر میں آ کر روٹی کھاتا، اپنا ہوم ورک ختم کرتا اور پھر تھکن دور کرنے کے لئے کھیل کے میدانوں کا رخ کرتا، دوستوں سے گپ شپ کرتااور پھر جب گھر آتا توشام ہونے کے بعد اپنی تعلیمی کتب لے کراکیلا استاد کے دیئے ہوئے سبق کو یاد کرتااگر کوئی مشکل آتی تو گھر والوں سے اس کے بارے سوال کرتا، تسلی بخش جواب نہ ملنے پر اس کو نوٹ کرلیتا تاکہ صبح دوستوں اور استادوں سے اس کے بارے میں مزید وضاحت لوں گا۔گھر والے طالبعلم کی ہر سرگرمی پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ تعلیمی ریکارڈ باقاعدہ چیک کیا کرتے تھے، سکول و کالج میں حاضری اور پیریڈوں میں مکمل حاضری اور دلچسپی کے بارے میں ہر استاد اور پرنسپل سے رابطے میں رہتے تھے۔اس دور میں تعلیم صرف سکول و کالج کی حد تک ہی ہوا کرتی تھی اور کوئی نام کی اکیڈمی یا کوئی ٹیوشن گھر میں پڑھتا ہو گا۔ اس کے دور کے استاد ٹیوشن کے سخت خلاف تھے اور وہ کہتے تھے کہ اگر جو استاد اپنے طالبعلم کو سکول و کالج میں کچھ نہیں سمجھا سکتا اور طالبعلم وہ چیزیں سکول وکالج میں نہیں سیکھ سکتا تو وہ ٹیوشن یا اکیڈمی میں کیا سیکھ سکے گا۔آپ یہ سمجھ لیں کہ اس زمانہ میں استاد اپنے فرض سمجھ کر طالبعلم کو حقیقی معنوں میں ایک فرض شناس، لائق،ایماندار، محنتی انسان بناتا تھا اور مستقبل میں وہی طالبعلم اپنے ملک، دوسرے ملکوں میں اہم ذمہ داریاں سنبھلتے تھے۔ اب اگر ہم اپنے موجودہ دور پر نظرڈالیں تو سب کچھ الٹ ہوگیا ہے۔سکول و کالج صرف ناموں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔اساتذہ اپنے فرائض نبھانا بھول گئے ہیں اور طالبعلموں میں بھی اپنے استادوں کی عزت کرنا، پڑھائی کا معاملہ سب کچھ بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے۔سکول و کالج میں استاد موجود بھی ہوتے ہیں لیکن کلاسز میں نہیں جاتے،طالبعلموں نے کلاس رومز کو کھیل کود والی جگہ بنا لی ہے۔گھر سے تو سکول و کالج کو جاتے ہیں لیکن ملتے وہ بازاروں، سنوکر کلبوں اور پڑھائی کے ٹائم میں باہر کے میدانوں میں ہیں۔استادوں نے بھی لاعملی کی حد کردی ہے۔استاد کو دیا ہوا سبق نہ طالبعلم کو سمجھ آتا ہے اور نہ ہی طالبعلم نہ سمجھ آنے پر دوبارہ استاد سے کوئی سوال کرتا ہے بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ سکول و کالج اور پیریڈوں کا ٹائم پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔آج کے دور میں تعلیمی اداروں کی بھر مار ہے لیکن وہ صرف نام کے ہی تعلیم ادارے رہ گئے ہیں۔کہیں دیوار ہے تو کہیں چھت نہیں، کہیں بجلی ہے تو کہیں پنکھے نہیں،کہیں جانور بندھے ہوئے ہیں تو کہیں کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے، کہیں سب کچھ ہے مگر نہ استاد ہے اور نہ ہی طالبعلم ہے اور کہیں استاد اور طالبعلم دونوں ہیں لیکن یہ سب چیزیں نہیں۔گورنمنٹ کی اس حالت کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھر مار کی وجہ سے استاد اور طالبعلم دونوں نے پیسے اور پڑھائی کی خاطر ان اداروں کا رخ کر لیا ہے۔اب تعلیمی اداروں میں تعلیمی معیار کم اور فٹنس میعار کی اہمیت ہو گی ہے۔طالبعلموں کے لئے نت نئے مہنگے یونی فارم، جوتے، کتابیں اور نہ جانے کون کون سے اخراجات بڑھا دئیے گئے ہیں کہ غریب تو تعلیم کے نام سے ہی ڈرنے لگ گیا ہے۔اس کے علاوہ آج کل ٹیوشن اور اکیڈمی ایک ایسا کاروبار بن گیا ہے کہ بہت سے استادوں نے تو گورنمنٹ اور پرائیویٹ نوکری چھوڑ کریہ کا م شروع کر دیا ہے۔واقعی؟جی کیوں کہ نہ ہی استاد اور نہ ہی طالبعلم سکول و کالج میں پڑھائی پر توجہ دیتا ہے۔تعلیمی ادارے اب اپنا مقام کھو رہے ہیں۔اب ہر طالبعلم اور اس کے والدین نے ٹیوشن، اکیڈمی میں اپنے بچوں کو بھیجنا لازمی کر دیا ہے۔جو استاد طالبعلم کو کلاس روم میں کچھ نہیں سمجھا سکا اور طالبعلم نے نہ کچھ کوئی سیکھا اور نہ کچھ پوچھا وہ ٹیوشن ، اکیڈمی میں کیا سیکھے گا؟ ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظردوڑیں تو تعلیمی ادارے کم اور ہر گلی، محلہ اور علاقہ میں ٹیوشن، اکیڈمی سنٹر زیادہ ہیں اور ایک ایک اکیڈمی میں اب توطالبعلموں کی شفٹیں لگنے لگی ہیں۔اکیڈمی کے مالکان بھاری تنخواہ پر استادوں کو بھرتی کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب وہی استاد ہوتے ہیں جو تعلیمی اداروں میں ان ہی طالبعلموں کو تعلیم دیتے ہیں لیکن اکیڈمی میں بھی وہی استاد اور طالبعلم ہوتے ہیں کیا اس موقعہ پر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہی طالبعلم تعلیمی ادارہ میں کیوں کچھ نہیں سیکھ سکتا اوراستاد میں کیا قابلیت ہے کہ وہ تعلیمی ادارہ میں تو کچھ نہیں سمجھا سکتا لیکن وہ استاد اکیڈمی میں تو طالبعلموں کو سب کچھ سمجھا سکتا ہے۔مسئلہ ٹیوشن ، اکیڈمی سنٹر نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کیوں استاد ، طالبعلموں کو تعلیمی اداروں میں پڑھائی کرانے اور سمجھنے سے قاصر ہو گئے ہیں کیا وجہ ہے کہ طالبعلموں نے تعلیمی اداروں میں توجہ دینا چھوڑ دی ۔ کیوں گھر والے بچوں کوٹیوشن، اکیڈمی سنٹر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔کیا کبھی اس بات پر بھی توجہ دی کہ وہی استاد بچوں کو تعلیمی اداروں میں کچھ نہیں سمجھا سکتا لیکن اکیڈمی سنٹر پر بھرپور توجہ دیتا ہے لیکن طالبعلم پھر بھی آگے جانے کی بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔تعلیمی معیار کم سے کم ہو رہا ہے۔کیا اب ہمارا استاد اپنے فرض سے غفلت کر رہا ہے یا دھوکہ؟ کیا ہمارا طالبعلم پڑھائی سے اکتا گیا ہے یا صرف ٹائم پاس کرنے کیلئے تعلیمی اداروں اور اکیڈمی کا رخ کرتا ہے؟ کیا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین نے بچوں پرتوجہ دینا ہی چھوڑ دی ہے ؟ہمارے تعلیمی اداروں میں طالبعلم سگریٹ نوشی، جھوٹ بولنا، کام سے غفلت،استادوں کی عزت نہ کرنا، پیریڈوں میں کھیل کود کو اپنے کارنامے اور شغل سمجھتے ہیں، موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے آنے سے جتنا برا اثر طالبعلموں پر پڑا ہے اتنا کسی اور فیلڈ پر نہیں پڑا۔طالبعلموں کی تعلیمی پر توجہ نہ دینے کی اہم وجہ موبائل اور انٹرنیٹ بھی کیوں کہ سکولوں ، کالجوں اور یونی ورسٹی میں دوران پڑھائی سب کی توجہ موبائل پر ہوتی ہے،میسج سٹم ، رات گئے لیٹ نائٹ گپ شپ اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے طالبعلم کو تعلیم سے دور کر دیا ہے طالبعلموں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارا نوجوان طبقہ کھیل کود اور اچھے کاموں سے دور ہو گیا ہے۔رات رات گئے پڑھائی کرنے کی بجائے طالبعلموں نے گپ شپ پر توجہ دینا شروع کردی ہے۔ رات دیر تک جگنے کی وجہ سے نہ تو طالبعلم کی نیند پوری ہوتی ہے اور نہ ہی پڑھائی ہو پاتی ہے اسی وجہ سے جب وہ صبح سکول وغیرہ جاتا ہے تو نہ ہی کوئی ہوم ورک ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو کچھ سمجھ آتا ہے وہ پورا دن کلاس میں سو سو کر گزرتا ہے ۔ کیوں والدین نے اپنے بچوں پر توجہ دینا چھوڑ دی ہے کیوں والدین نوٹ نہیں کرتے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارا بچہ اکیلا رہنا پسند کرتا ہے۔کیوں رات رات گئے لیٹ نائٹ جگتا ہے۔ کیوں اس کی قدرتی صلاحیتں دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔ کیوں وہ یہ کہتا ہے کہ آج وہ استاد نہیں آیا یا یہ پیریڈ میں پڑھائی نہیں ہوئی۔کبھی آپ نے نوٹ کیا کہ کیوں ہم طالبعلم کو اکیڈمی بھیجنے کی بجائے سکول ، کالج اور یونی ورسٹی کے پرنسپل یا استادوں سے رابطہ کرتے کہ کیا وجہ ہے کہ طالبعلم وہی سب کچھ اکیڈمی میں تو سمجھ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن تعلیمی ادارے میں فیل ہو جاتا ہے۔کیاوجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں والدین اپنے بچوں کوسرکاری اداروں کی بجائے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھائی دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ ایسے مسائل ہیں جس کے ذمہ دار صرف اور صرف استاد اور والدین ہیں کیوں کہ جب تک استاد اور والدین اپنے طالبعلموں اور بچوں پر مکمل توجہ، سختی،تعلیمی معیار، ٹیکنالوجی کے غلط استعمال پر دھیان نہیں دیں گے ہمارا طالبعلم روز بروز تعلیم سے دور اور غلط کاموں میں ترقی کرتا جائے گا۔ جب تک تعلیمی معیار ٹھیک نہیں ہوگا اس وقت تک اکیڈمی کاروبار چلتا رہے گا۔

Back to top button