ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ کا ایک منٹ ’’ کیا کھوکھر راجپوت ہیں ؟‘‘
ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ کا ایک منٹ ’’ کیا کھوکھر راجپوت ہیں ؟‘‘
ایک منٹ
تحریر ۔ملک قیصر اقبال ٹھیٹھیہ
کیا کھوکھر راجپوت ہیں ؟
اس علاقہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے سر ڈینزل ابٹسن کی کتاب PUNJABI CASTSپڑھنے کو ملی جس میں پنجاب کی اہم اقوام کے بارے میں حقائق کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کتاب کا اردو ترجمہ یاسر جواد نے پنجاب کی ذاتیں کے نام سے بھی کر رکھا ہے ۔اس کتاب میں سر ڈینزل ابٹسن لکھتے ہیں پنجاب کے مشرق میں کھوکھر تسلیم شدہ راجپوت نظر آتے ہیں ۔تاہم جالندھر میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے قبیلے کے اند ر ہی شیخوں ،اعوانوں اور دیگر کے ساتھ شادی بیاہ کرتے ہیں نہ کہ اپنے راجپوت پڑوسیوں کے ساتھ ۔لیکن مغرب میں کھوکھر غزنی قطب شاہ کے سب سے بڑے بیٹے محمد کی اولاد ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں جو اعوانوں کا روایتی مورث اعلٰی ہے اور اعوان بھی یہ تسلیم کرتے ہیں ۔تاہم یہ بھی ان کی اپنی کہانی جیسا ہی من گھڑت ہے ۔مسٹر بارکلے نشاندہی کرتے ہیں کہ میجر ٹاڈ نے جیسلمر کے جو وقائع بیان کیے ہیں وہ جیسلمروں کے کھوکھروں اوربھٹیوں کے درمیان حضرت محمد ﷺکے دور سے بہت پہلے کے جھگڑے بیان کرتے ہیں ۔تاہم میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ میجر ٹاڈ کے خیال میں کھوکھر شاید گھکڑ ہی کا غلط تلفظ ہے ۔وہ کھوکھرا کو راٹھور راجپوتوں کا ایک قبیلہ بتاتے ہیں ۔بہاولپور میں کھوکھر راجپوت اپنا مرکزی قبیلہ بھٹی بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔بحیثیت مجموعی لگتا ہے کہ وہ در اصل راجپوت ہیں ۔جبکہ سرحد میں راجپوتوں کو جو کم درجہ حاصل ہے اس کی وجہ قریشی النسل ہونے کا دعوٰی ہے ۔جس نے مسلمان قبائل میں تیزی سے مقبولیت اختیار کی سرسا میں جہاں ذات سے باہر شادی کرنے کی پابندی پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ،کھوکھر مقامی راجپوت قبائل میں باہمی شادیاں کرتے ہیں ۔دراصل سر لیپل گریفن اعوان کے ساتھ مشترک ماخذ کا دعوٰی کرنے والے کھوکھروں کو کھوکھر راجپوتوں سے الگ تصور کرتے ہیں ۔لیکن اس کا درست یا غلط ہونا مشکوک ہے کیونکہ اعوان روایتی بدیہی طور پر بہت زیادہ مقبول ہے ۔حتٰی کہ ان کھوکھروں میں بھی جو ابھی تک سارے علاقے میں بطور راجپوت اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کھوکھر اس قدر وسیع پیمانے پر بکھرے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی دور میں اتنے طاقت ور رہے ہیں کہ پنجاب میں پست ذاتوں کے قبیلوں کے لیے کھوکھر بھی اتنا ہی مرغوب نام ہے جتنا کہ بھٹی ۔اور ہو سکتا ہے کہ وہاں پر راجپوتوں سے قطع نظر کھوکھر الگ ذات ہو بالکل اسی طرح جیسے یہ دونوں یقینی طور پر کھوکھر چوہڑوں سے الگ ہیں ۔کرنل ڈیویز کہتے ہیں کہ شاہ پور کے کھوکھروں کی متعدد سماجی روایات ہندو ماخذ کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور قطب شاہی کہانی کے خلاف بہت فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے ،
دریائے جہلم وچناب کی وادیوں کے ساتھ ساتھ اور خصوصا جھنگ و شاہ پور اضلاع میں کھوکھروں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔لیکن چاہے کم تعداد میں ہی سہی وہ زیریں سندھ ،ستلج کے علاوہ جہلم سے لے کر ستلج تک پہاڑوں کے دامن میں بھی ملے ہوئے ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پنڈدادنخان کا نا بھی ایک کھوکھر سردار کے نا م پر ہے ۔جو جہانگیر کے دور میں اس علاقہ کا راجہ تھا ۔گجرات اور سیالکوٹ کے کھوکھروں میں ایک اہم روایت کے مطابق وہ بالاصل گڑھ کراناہ میں آباد ہوئے ۔تاہم مسٹر سٹینڈ مین کی رائے میں یہ ضلع جھنگ میں شاہ پور کے جنوب میں واقع کوہ کیرانا ہے اور تامرلین نے انہیں وہاں سے بے دخل کیا ۔
جہلم اور چناب کے میدانوں کے کھوکھروں کے ارتکاز اور دامن کوہ خطہ کے کھوکھروں کا وسیع اختلاط اس نظریہ میں کچھ رنگ بھرتا ہے کہ وہ پہاڑیون سے نیچے کی طرف پھیلے نہ کہ جنوب سے اوپر کی طرف ۔
مسلمان تاریخ دانوں کے مطابق تیمور کے حملہ کے وقت کھوکھر لاہور پر قابض او ر اپر باری دو آب میں خاصے طاقت ور تھے ۔
چودھویں صدی میں شیخا یا شجاع مشہور کھوکھر سردارنے 1393میں لاہور پر قبضہ کیا ۔بعد میں شیخا کا بیٹا جسرت ان کا سردار بنا ۔اس نے کشمیر پر قبضے کے لیے شاہی خان کا ساتھ دیا اور علی شاہ کا مقابلہ کیا ۔اس نے دہلی تک فتوحات کیں ۔کھوکھروں کی تاریخ فتح و شکست کی داستانوں سے مزین ہے ۔کھوکھر قبیلے سے نکلنے والے کئی ذیلی قبائل آج اپنی شناخت کھو رہے ہیں ،انہیں اپنے خاندانی پس منظر پر فخر کی بجائے نہ جانے کیوں شرمندگی ہے ۔
اس مختصر کالم میں کھوکھروں کی تاریخ کو بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن کوشش کی ہے کہ کھوکھروں کے اوریجن کے بارے قارئین کو تھوڑی سی معلومات فراہم کی جائیں ۔بحرحال ہمارا کام ایسے تاریخی حقائق کو سامنے لانا ہے جن سے آج کی نوجوان نسل کی نہ صرف معلومات میں اضافہ کیاجائے بلکہ ان کاشوق مطالعہ بھی بڑھایا جائے ۔اب بھی اگر کوئی کہے کہ کھوکھر راجپو ت نہیں ہیں تو ہم ہی ہار مان لیتے ہیں ۔