آئینہ توڑنے سے حقیقت نہیں بدلتی ……….. تحریر . مہوش بدر
ڈرامہ اُڈاری کو پپمرا کا شوکاز نوٹس …………… تحریر :. مہوش بدر
ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل ‘اڈاری’ کو پیمرا نے ‘غیر اخلاقی’ منظر کشی کرنے پر جوابدہی کا نوٹس بھیج دیا ہے۔ پیمرا نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ ہم ٹی وی کے اس پلے میں سوتیلے باپ کا کردار ادا کرنے والے شخص کو نو عمر بیٹی پر بری نظر اور ارادہ رکھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پیمرا کے مطابق اس منظر کے نشر ہونے سے ناظرین میں اور خصوصاََ والدین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پیمرا نے اپنے نوٹس میں یہاں تک کہا کہ کسی ‘ماہر نفسیات’ کے مطابق چینل کا یہ عمل ایسی ذہنیت رکھنے والے افراد کے جذبات ابھارنے کا سبب بنے گا نیز یہ ہماری معاشرتی اقدار کے بھی خلاف ہے۔
اپنے نوٹس میں پیمرا نے کہا کہ معاشرے میں موجود لاتعداد برائیوں کو ایسے انداز میں پیش کرنا کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس سے یہ تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پیمرا میں بیٹھے ارباب اختیار اس بات سے متفق ہیں کہ ایسی برائیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، ہاں پیمرا کو ان کے بارے میں معاشرے میں شعور پیدا کرنے پر اعتراض ہے۔ پیمرا نے کس ماہر نفسیات سے رجوع کیا ہم نہیں جانتے مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ لاتعداد زندگیاں اس موضوع پر پڑے خاموشی کے دبیز پردوں کی وجہ سے برباد ہوگئیں۔
‘اڈاری’ میں جو سب سے اہم بات دکھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب ایک عورت جنسی تشدد کے خلاف اپنی آواز اٹھاتی ہے اور اس بات کا دعویٰ کرے کہ کسی نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے یا زیادتی کی کوشش کی ہے یا کسی نے اسے ہراساں کیا ہے تو یہ بہت زیادہ اہم ہے کہ اس کی بات سنی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات گھروں کے اندر بند ماحول میں ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر ایسا شخص ایسے گھناؤنے فعل کا مرتکب ہوتا ہے جس پر گھر میں بہت اعتماد ہوتا ہے۔ اور جنسی بدسلوکی اور ایذارسانی کے مرتکب افراد ایسے ہی پس منظر سے ہوتے ہیں کہ ہر کوئی ان پر اعتماد رکھتا ہے، ہر کوئی انھیں جانتا ہے۔ سو جب وہ کوئی حرکت کرتے ہیں تو پھر ان کے خلاف محض ایک عورت کی گواہی ہوتی ہے جب کہ ان کے حق میں سب گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔ اور پدر سری نظام میں ساری وقعت اور وزن مرد کی بات میں ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اس پلے نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے کہ اس بات کو دکھایا گیا ہے کہ اس کی ماں فوراََ اپنی بیٹی کی بات پر یقین کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میری بیٹی جھوٹ نہیں بول سکتی۔ اسی طرح کا یقین ماؤں کو اپنی بچیوں پر دکھانے کی ضرورت ہے۔ نیز خاندان کو اور مردوں کو آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ ان کی آواز اس معاشرے میں وزن رکھتی ہے۔
یہ یاد رہے کہ اس موضوع کے گرد حجاب کے پردے اس قدر ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کہ اکثر کیس چھپا لئے جاتے ہیں کہ کوئی ہماری بات پر یقین نہیں کرے گا۔ لوگوں کو پتہ ہے کہ اس سے عورت کی ‘عزت’ خراب ہوگی۔ ستم ظریفی ہے کہ جنسی بدسلوکی اور ایذارسانی کے مرتکب افراد کو معاشرہ تحفظ دیتا ہے اور جو اس فعل کا شکار ہوتا ہے اس سے سوال کیا جاتا ہے۔
پیمرا کا نوٹس بھی اسی قسم کی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معاشرے میں پھیلی برائی کے متعلق شعور پھیلانے کی بجائے ڈرامے پر ہی پابندی عائد کر دی جائے۔ ایسا فعل بذات خود معاشرے کی ایسے واقعات پر نظریں پھیر لینے کی روش کی امداد ہے۔ سو اس نظام پر سوال اٹھانے اور اس کی تضیح کرنے کے لئے ایسے ڈراموں کا بنتے رہنا بہت ضروری ہے۔