’’روشن تیری تربت کو۔۔۔۔۔‘‘ تحریر : جویریہ خان
’’روشن تیری تربت کو۔۔۔۔۔‘‘
[بیاد امجد فرید صابری شہید]
تحریر: جویریہ خان
جہاں دل میں اندھیرا رہتا ہے
جہاں قانون بھی بہرا رہتاہے
ہم اس دیس کے باسی ہیں۔۔
جس دیس میں لہو ٹھہرا رہتا ہے
اس جہان رنگ و بو کے عجب انداز ہیں۔یہاں رونے والے کی قسمت میں ہنسی لکھی ہے تو کہیں ہنسنے والے کی قسمت میں رونا۔۔جہاں تک نظام خداوندی کی بات ہے تو دل بے قرار کو قرار آ ہی جاتا ہے۔۔۔مگر کھیل وہاں سے شروع ہوتا ہے جب خود انسا ن اپنے ہی جیسے ہم نفسوں کی خوشیوں کا قاتل ٹھہر جائے۔۔اور اس آفاقی اصول سے بے خبر کہ ہم سب یہاں مجبور ہیں۔۔آج اگر کوئی طاقت کے زعم پر ظالم بنتا ہے تو کل وہ لازما مقہور ٹھہرے گا۔۔
دل کی عجیب حالت ہے۔۔اک خوف کی چادر ہے جو نہ صرف پوری قوم بلکہ پوری انسانیت پر تنی ہے۔۔ یہ کیسا جنگل کا قانون نافذ ہے۔۔ہر سو لاشیں بکھری ہیں زندہ تلاش کرنا ناممکن ہے۔۔۔گولی سستی ہو گئی ہے روٹی آج بھی نایاب ہے۔۔ پوری قوم کی سوگواریت ایک بار پھر عروج پہ ہے۔۔۔صابری خانوادے کی آخری آواز کا گلہ دبا دیا گیا۔۔ہم سب میں سے کوئی پاکستانی ہے ، کوئی بھارتی ، کوئی افریقی ،امریکی۔۔تو کوئی برطانوی۔۔مگر وہ تو ایک قوال تھا۔۔جسکی گونجدار،سریلی آواز سرحدوں کو پھلانگتی دور بسے ہر اک کان میں رس گھولتی چلی گئی تھی۔۔اس بے ضرر انسان کی کس سے دشمنی تھی جو یو ں آج بیہیمانہ طریقے سے اسکی زندگی کی ڈور کاٹ ڈالی گئی۔۔صابری ہم میں نہیں رہے۔۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کے اس دور تاریک میں کہ جس میں ملک پاکستان گزر رہا ہے۔۔فہرست مظلومین میں ایک اور کا اضافہ ہو چلا ہے۔۔۔آج سوگواروں کے لئے ایک امجد کا ہی نہیں ان سب کا غم ہے جو اس تاریک راہ میں مارے گئے۔۔اور فراموش کر دےئے گئے۔۔کانوں کے غلاف میں امجد شہید کے لاتعداد الفاظ گونج رہے ہیں۔۔
بھر دو جھولی میری۔۔۔۔
رب جانڑے تے حسین جانڑے۔۔۔۔
دم مست قلندر مست مست۔۔۔۔
مگر دل اس بندہ خدا کے آخری الفاظ پہ اٹکا ہے۔۔۔
میں قبر اندھیری میں گبھراؤں گا جب تنہا
امداد میری کرنے آجانا رسول اللہؐ
میں اب بھی یہی سوچ رہی ہوں بدھ کی صبح سماء ٹی وی کی افطار ٹرانسمیشن میں نجانے کیا سوچ کر امجد صابری پرسوز آوازمیں یہ شعر دو بار پڑھ گئے۔۔۔
روشن میری تربت کو للہ ذرا کرنا۔۔۔
جب وقت نزاع آئے۔۔۔
دیدار عطا کرنا۔۔۔۔۔۔!!!!!!