تحریر: سعدیہ نور
میرا عشق گستاخانہ ۔۔۔۔۔۔۔!!!
میرا عشق گستاخانہ
میرا جسم ضوخانہ
میرا دل ہے میخانہ
جل کر بھسم ہوتا
آگ سے تن سلگانہ
میری آنکھ میں وضو
مل گیا ہدایت نامہ
کروں شکوہ ملحدانہ
تری نظر ہے کریمانہ
منظور جل کے مرجانا
اے میرے کبریاء جاناں
اب تو بنادے دل میخانہ
شروع ہوا ہےمسیحانہ
نظر ِ کرم ہو ہو تجلیانہ
اے جان !میری جانِ جاناں
عشق سے گستاخی ہوگئ اور شرم سے سر جھک گیا۔ عشق نے ہجر سے وصل کی خاطر تن میں آگ جلا لی ۔ آگ ایسی جلی کہ پورے بدن کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اور عشق سے توقع کیا ہو۔ جیسے لکڑی کی راکھ بچے ، کچھ عشق کی بربادی نے کچھ نہ چھوڑا۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ عشق کو حجاب نہ آیا اور گستاخ عشق نے نین سے نین ملا کر رقص کی بازی شروع کردی ۔ عشق بھڑکا کہ شعلہ کوندھا ۔ سب کچھ بھسم کر کے لے گیا ۔
سوال یہ عشق گستاخ کیوں ہوتا ہے ؟ کچھ ایسا درجہ عشق کو محب کی نگاہ میں حاصل ہو جاتا ہے کہ سب بے حجاب ہوجاتا ہے ، سارے نقاب اتر جانے کے بعد عشق کو خود پر قابو نہیں رہتا اور وہ رقص کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ ایک دن میں نے عشق سے پوچھا۔:
اے عشق ! اتنا تو بے قابو کر دیا ہے ۔
اب ہوش میں کیوں رکھتے ہو۔۔؟
میخانہ کو پیمانہ میں کیوں بدلتے ہو۔
عشق ہوتا ہے نا گستاخ ۔۔۔
کر دی گستاخی ۔۔۔!
عشق بولا۔۔۔۔۔ میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ میخانہ
فرق نہ جان تو دیوانے کا دیوانہ
مان جا تو اب تیرا دل یے اب فقیرانہ
پی ، پی کر بھی ترا دل ہے کیا ویرانہ ۔۔!!
اس کی مستی کے آگے جواب کیا ۔۔۔؟ عشق تو وہ انتہا ہے ، جس کی انتہا ہی نہیں ۔ یہ وہ جگہ ہے جس کو کوئی پہنچ جائے تو مقام اس کا کبھی گرتا نہیں ہے ، اب مسئلہ یہ ہے محبت عشق کا درجہ حاصل کیسے کرے ، محبت کی قربانی اسے عشق کے درجے تک پہنچا دیتی ہے ۔ دل تو سوچ میں پڑ گیا کہ عشق کے درجہ تک کیسے پہنچا جائے ۔
دل نے ٹھان لی ہے کہ اب تو آگے جانا ہے کہ اب پیچھے رہنا نہیں ہے ، بہت وقت کھو چکا ہے ،
محبت ، اے محبت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وجود کی نفی کر دے
اے محبت سب کچھ ختم کردے
مٹادے وجود کی خاک سے
سب نقش مادیت کے
مگر مادیت کو رہنے دے
اس طرح کہ ،،،،،،،،
دل اور روح اس مادے کے اندر
یکجا رہیں
جیسے پارہ اندر پیمانہ کے ۔۔!
ہستی جل رہی ہے کاغذ کے کالک سیاہی بن کر اڑ جائے گی ، اس سیاہی میں چھپی "ضو” جگہ جگہ پہنچے گی ۔ دل کا مادہ جتنا پگھل پگھل کر پیمانے میں پارہ کی طرح ٹوٹ کر بکھرا گا ۔ اسکی گرمائش سے جہاں کے سرد خانوں کو روشن و گرم ، تازہ کر دے گا۔
محبت جب یہ کام کر چکے گی تو عشق کا ” عین” پالے گی ۔ ہر بڑا کام قربانی مانگتا ہے ۔
دل سے تاریکی کے سارے پردے اٹھتے جا رہے ہیں ، جب عشق کی داستان اور قربانی کی بات سن لی تو سوچا۔۔۔
دنیا میں سب سچا ہے
دنیا میں یہ وجود مایا
اس مایا نے کیا پانا
اگر جاں دے نہ نذرانہ
اور چھلکے نہ میخانہ ۔
میخانہ چھلکنے کو بے تاب ہے مگر وہ مقام پہنچا کہاں کہ چھلکے جام اور بکھر کر بھی بکھرے نا۔!!! حقایت عشق و محبت کو بیان کرنے کے لئے لفظ تھوڑے پڑ جاتے پیں۔ بس کچھ یاد رہتا ہے تو ۔۔۔۔۔
والیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
سورج کی دن سے رخصتی بھی محبت میں ہوتی ہے اور رات کو حجاب عشق کے سارے نقاب ، بے نقاب ہو کر بھی پوشیدگی میں رہتے ہیں ۔ محبت و عشق میں کی دنیا باندھی و لونڈی ہوتی ہے ۔ اس کو اشارہ کرو ، یہ کبھی پاس بھی نہ پھٹکے گی ۔۔۔۔ ! اشاروں اور کنایوں کی گفتگو سورج و چاند ، دن اور رات سمجھنے لگتے ہیں ۔۔ تب محبوب کے لیے تشبیہات و استعارے شروع ہوجاتے ہیں ، اس کی گھنیری زلفوں کی شان رات کا حسن تھوڑا پڑ جاتا ہے ، اس کی نیم وا مست نگاہی مدہوش کرنے کا اختیار رکھتی ہے ، جیسے دنیا میں روشنی کا احساس باقی ہو ، عشق کا نشاط باقی ہو ، درد کا خمار باقی ہو اور باقی اگر کچھ ہو نہ ہو تو وہ اپنی ذات نہ باقی ہو،۔۔۔!!
اس سفر کی جستجو ہے
بلبل بھی تو خوش گلو ہے
جس سفر میں وہ روبرو ہے
اس کی دید کی طلب میں
اکھیاں میری باوضو ہیں ۔
اب تو جنون کی حقایت میں
پھلنی چار سو یہ خوشبو ہے
اس طرح سے مجھے پھونک دے
اے میرے عشق !
گل گل کو ملے میری خوشبو
رنگ رنگ نکھرے اس ضو سے
پراوانے کو بس شمع کی آرزو۔