گلِ NOخیز اخ۔۔۔تر …….تحریر : فہد خان شیر وانی
گلِ NOخیز اخ۔۔۔تر
تحریر : فہد خان شیر وانی
گل نو خیز اختر کا نام ان کے والدین نے صرف گل نو خیز رکھا تھا۔ میری پریشانی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پھر انہیں گل نو خیزاختر کیوں کہا جاتا ہے۔ یہی سوال جب میں نے ان کے بڑے بھائی سے کیا تو وہ بتانے لگے ’’اس کے نام کے ساتھ ’’اختر‘‘ کا اضافہ اس لئے کیا ہے کیونکہ بچپن میں کیایہ اب بھی ہر چیز کو ’’تر‘‘ کر دیتا ہے چاہے وہ مولٹی فوم ہو۔۔۔۔۔۔یا پھر۔۔۔۔۔۔کسی کی گود۔۔۔۔۔۔
گل نوخیز اختر کو اپنا نام مختصر لکھنے کا بہت شوق ہے وہ ہر جگہ اپنے نام کی جگہ "GNA”(گل نو خیز اختر) لکھتے ہیں اور "GNA”پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے گوجرانوالہ کی کسی گاڑی کا نمبر ہو۔۔۔۔۔۔’’شاہ جی‘‘ کہتے ہیں کہ اگر اسے مولوی بنا دیا جائے تو یہ "MNA”(مولوی نو خیز اختر) بن جائے گا۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ انہیں ’’مولوی‘‘ اور "MNA” بنا کر ہم ایک اچھے انسان اور منفرد مزاح نگار سے محروم ہو جائیں۔ میری اللہ میاں سے خواہش ہے کہ وہ نو خیز اختر کو ڈاکٹر بنا دے پھر میں دیکھتا ہوں وہ کیسے اپنے نام کی جگہ "DNA” لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔
گل نو خیز بچپن ہی سے تیز طرار ، ذہین اور حاضر جواب طبیعت کے مالک ہیں انہوں نے ایم۔ اے ملتان یونیورسٹی سے کیا ۔یونیورسٹی میں پہلا دن تھا تو پروفیسر صاحب نے لیکچر دیتے ہوئے کہا ’’دیکھو لڑکو ں کولڑکیوں کے ہاسٹل کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہے اور جس نے لڑکی کو چھیڑا ،اسے سو (100)روپے جرمانہ ہو گا دوسری دفعہ چھیڑنے پر دو سو روپے اور تیسری دفعہ چھیڑنے پر پانچ سو روپے جرمانہ ہو گا‘‘۔ یہ سن کر نو خیز اختر نے کھڑے ہو کر کہا ’’پروفیسر صاحب !یہ بار بار کی بات چھوڑیں ہمیں بتائیں پورے سال کا ریٹ کیا ہے۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ نو خیز سے پوچھا گیا’’آپ ہر وقت فلمی اداکاراؤں کی نقل کیوں کرتے رہتے ہیں‘‘کہنے لگے ’’کل مولوی صاحب بتا رہے تھے جو جس کی نقل اتارے گا حشر میں اسی کے ساتھ اٹھے گا‘‘۔۔۔۔۔۔گل نو خیز کو گنگنانے بلکہ اپنے ’’گُن‘‘ گنانے کو بھی بے حد شوق ہے۔ ایک مرتبہ میں ان کے گھر گیا تو مسلسل ایک گانا ’’جینا صرف میرے لئے‘‘ گنگنارہے تھے۔ میں بہت حیران تھا کہ وہ تو انڈین گانے پسند نہیں کر تے آج انہیں کیا ہو گیا ہے۔ ابھی میں سوچ میں ہی گم تھا کہ ڈرائینگ روم کے دروازے پر دستک ہوئی اور ایک نسوانی آواز نے کہا’’چائے تیار ہے لے جائیں‘‘۔۔۔۔۔۔ گل نوخیز نے بڑے پیار سے جواب دیا ’’اچھا جینا! میں آرہا ہوں ‘‘۔تب مجھ پر انکشاف ہوا ’’جینا‘‘ در اصل ان کی نئی ملازمہ کا نام ہے۔۔۔
گل نو خیز اختر مزاح کی پیداواری کا ایک نیا باب ہیں اگر گل نو خیز اختر اور مزاح کو الگ الگ کر دیا جائے تو میرے خیال میں دونوں کی موت واقع ہو جائے گی۔ ان کا تعلق ملتان سے ہے۔دنیائے ادب میں ملتان کی سر زمین کابے پناہ حصہ شامل ہے اگر ملتانی ادیبوں اور شعراء کے نام گنوانے لگوں تو امید ہے میں ناکام رہوں گا۔ادب کے حوالے سے ملتان کی مٹی بہت زرخیز ہے اگر کسی محفل میں کوئی شخص اپنا تعلق ملتان سے ظاھر کرتا ہے تو سننے والا چوکنا ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ایسے ہی ملتان کا فخر گُلِ نوخیز اختر ایک مرتبہ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ صوفی اشفاق احمد مرحوم سے ملاقات کے لئے گئے ۔جب نوخیز کے تعارف میں ملتان کا نام آیا تو مرحوم نہ صرف چوکنے ہو گئے بلکہ اٹھے اور نوخیز سے دوبارہ گلے ملے سب کو چھوڑ کر ان سے باتیں کرتے رہے۔یہ ہے ملتان کی شان ۔میرا بھی کچھ عرصہ ملتان میں گزرا ہے ۔ملتان سے میری انتہائی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں اور اس حوالے سے ا س وقت اپنے جذبات کی عکاسی کرنے لئے مجھے ناہیدانجم کے اس شعر سے بہتر کوئی الفاظ نہیں مل رہے
اس کے وجود کے انجمؔ مہرباں لمس کو
میری انگلیاں اب چھونا چاہتی ہیں
۔ آخر میں گلِ نوخیز کے لئے چندایک الفاظ٭۔۔۔۔۔۔
دنیا میں جو اضافہِ ثمریز کرتا ہے
ادب کے پودوں کو جو زرخیز کرتا ہے
لکھے ٹائیں ٹائیں فش بنائے ٹاپ اردو ڈاٹ کام
جو کام کوئی نہیں کرتا وہ گلِ نوخیز کرتا ہے