ادب کا اعتبار ……..
ادب کا اعتبار
تحریر:فہد خان شیروانی
ان سے مل کر سب سے پہلا تصور’ سب سے پہلا عکس‘سب سے پہلا خیال‘سب سے پہلی سوچ‘سب سے پہلا احساس یہ پیدا ہوتا ے کہ ان کا نام اعتبار کیوں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔لیکن اس کی کوئی سمجھ نہیں آسکی۔’’شاہ جی‘‘ کے خیال میںیہ سمجھتے ہیں کہ’’ کسی‘‘ کو ان کا بالکل اعتبار نہیں ہے ۔اسی لئے یہ کہتے ہیں
مجھے اعتبار تو کہہ دیا میرا اعتبار نہیں کیا
انہیں ہر وقت ادھار مانگنے کی پڑی رہتی ہے ان کے دوست ان کی اس بات سے بے حد نالاں ہیں ۔اور تو اور ان کی ’’وہ‘‘ بھی ان سے خفا رہتی ہے۔کیونکہ یہ اس سے بھی ادھار مانگتے ہوئے پہلے شام لیکن اب کہتے ہیں
مجھے کوئی دام ادھار دو
ان کی اس عادت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے اپنے علم وعرفان کو ذریعہ بنا کر ساری دنیاسے یہ کہہ دیا کہ’’مجھے کوئی شام ادھار دو‘‘۔ انہیں کوئی ادھار دے یا نہ دے ’’علم و عرفان‘‘کو ضرور دینا پڑتا ہے۔انہیں اپنے علم اور عرفان سے اتنی محبت نہیں ہے جتنی گل فراز بھائی سے یا ’’علم وعرفان‘‘سے ہے۔انہوں نے کافی زیادہ’’ بکس‘‘ لکھیں لیکن پسند وہی کی جس پر "چیک بک” لکھا ہوتا ہے۔ایک مرتبہ اپنی نئی بک کسی استاد نقاد کو چیک کرانے کے لئے گئے تو اس نے کہا کہ بک چیک تب ہوگی جب آپ کے ساتھ چیک بک ہوگی۔انتہائی اچھی شاعری کرتے ہیں ۔باتھ لٹریچر کے حوالے سے استاد امام دین کے بعد ا ن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔یہ صنف کے شاعر ہیں ۔ ’’میری اس بات کا مطلب وہی ہے جو آپ کے ذہن میں ہے اور آپ اچھے طرح جانتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے‘‘۔جی ہاں! یہ صنف نازک کے شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں اکثر اس صنف کی بڑائی بیان کی جاتی ہے یا برائی ۔۔۔۔۔۔
اعتبار ساجد کی شاعری بے حد اچھی عمدہ اور مفہوم سے بھر پور ہوتی ہے۔ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں عام مرد شاعرکی خوبصورت شاعری کو سننا کوئی پسند نہیں کرتا۔جبکہ خوبصورت شاعرہ کی بری شاعری یہاں شوق سے سنی جاتی ہے حالانکہ یہ ’’شاک‘‘ سے سننی چاہیے۔ صحت کے اعتبار سے ان کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا انداز انتہائی لکھنوی طرز زندگی کا ہے۔سفید بے داغ قمیض تنگ چوڑی دار پا جامہ سیدھی مانگ اور الٹا ہاتھ ایک تھیلی میں پان کی گلوریاں سنبھالے ہوئے ہوتا ہے۔ نان نقطہ ، دھان اور پان کھاتے ہیں۔ جبکہ نان کا نقطہ اور دھان پان سے لگتے ہیں۔پان ایسے چباتے ہیں جیسے حکومتی ارکان خزانہ۔ اکثر اوقات ان کی جیب سے پیسوں کے بجائے پان نکلتا ہے۔ یہ تو جاتے ہی ان مشاعروں میں ہیں جہاں ان کے ساتھ ساتھ پان کے لوازمات بھی پورے ہوں سکیں۔انہیں آمد سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ایک بڑا المیہ ہمارے ملک کے لکھاریوں کے ساتھ یہ ہے کہ جس کی قلم سے آمدنی زیادہ ہو جائے اسے آمد کم ہو جاتی ہے۔ان کی صحت اور کھانے میں بے حد تضاد پایا جاتا ہے۔میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ بھائی آپ کم کھایا کریں تاکہ آپ کی صحت بن سکے۔۔۔۔۔۔
اردو انتہائی گاڑھی کر کے بو لتے ہیں ۔ الفاظ بے حد اچھے اور ثقیل استعمال کرتے ہیں ۔میں نے انہیں کبھی بھی شاعر کے طور پر قبول نہیں کیا۔حقیقتاََیہ ایک بہت بڑے مزاح نگار ہیں ۔ مجھے ہمیشہ اس بات پر افسوس رہے گا کہ شاعری نے ہم سے ایک اچھا مزاح نگار چھین لیا۔ ان کی تحریر اور شاعری پڑھنے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ان کو اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔ان کے لفظ اور لفظوں کے بدن ابھی تک کنوارے ہیں۔کہتے ہیں مخالف صنف انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔جی بالکل مخالف صنف نے انہیں چھوا نہیں ہے لیکن انہوں نے۔۔۔خیر چھوڑیں۔ اچھی اور شستہ اردوبولتے ہیں اوراچھی ہی بولنے والوں کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کا اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ ایک قبائلی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں ایک میزبان پٹھان کی اردو سے متاثر ہو کراس کی حوصلہ افزائی کے لئے کہنے لگے’’محترم!آپ تو بے حد اچھی اور صاف اردو بولتے ہیں‘‘۔’’نہیں جی ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے بس آپ بکواس کرتے ہیں‘‘ ۔۔۔۔۔۔خان صاحب نے انکساری سے جواب دیا۔
کالج میں پروفیسر ہیں ۔ایک مرتبہ ان کی ایک فی میل کولیگ نے ان سے کہا’’ آج آپ کا پیریڈ ہے‘‘؟۔کہنے لگے’’نہیں میرا تو کبھی پیریڈ نہیں ہوتا ہمیشہ لیکچر ہوتا ہے ’’پیریڈ ‘‘تو آپ کا ہو تا ہے۔۔۔۔۔۔جوانی میں ان کی آنکھیں پیاری تھیں لیکن اب بوجہ A چشم خرابی پی ’’آری‘‘لگتیں ہیں ۔شاید’’بمبئے روکرز‘‘ نے اپنا گانا ’’آری آری‘‘ ان کی آنکھوں سے ہی متاثر ہو کر بنایا ہے۔انہوں نے اپنی ان کمزور اور نہ دِکھنے والی آنکھوں کی وجہ سے ان عالموں، دانشوروں اور مفکروں کے علم کو نا مکمل قرار دیاہے جو کہتے تھے کہ آنکھیں کھول کر چھینکنا مشکل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آنکھیں کھول کر ہنسنا بھی نا ممکن ہے۔ ہنسنا ان کے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا حکومتی ارکان کا رونا۔کہتے ہیں ہنسی کے لئے بات نہیں بتنگڑ کی ضرورت ہوتی ہے اوراس مقصد کے لئے پاکستانی فلمیں دیکھتے رہنا چاہئے۔
بہت ہی نمازی پرہیزی ہیں۔۔۔ بہت ہی پر ہیز کرتے ہیں ۔۔۔نماز سے۔۔۔۔۔۔صرف عید کی نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی عیدالاضحیٰ کی ۔ اگرغلطی سے کسی کا جنازہ پڑھنے چلے جائیں تو لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھنے لگتے ہیں کہ کہیں آج عید تو نہیں ہے ۔ عیدالاضحی کی نماز اس لئے پڑھتے ہیں تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ یہ مسلمان ہیں اور ان کے گھر گوشت بھیجیں۔لوگ ان کے گھر جو گوشت بھیجتے ہیں وہ یہ بعد میں بیچتے ہیں۔۔۔اگر کوئی ان سے ان کے دل پسند شاعر کا نام پو چھے تو فوراََ کہیں گے ۔۔۔امانت چن۔۔۔ یہ جیکی چن کو امانت چن کا رشتہ دار سمجھتے ہیں۔ رائٹر ہونے کے باوجود کسی رائٹر کلب کے ممبر نہیں ہیں البتہ ویسے تویہ کئی کلبو ں کے ممبرز ہیں جنہیں ’’نائٹ کلب‘‘کہا جاتا ہے۔محترم نائٹ کلب کو رائٹ کلب کہتے ہیں بلکہ سائٹ کلب کہتے ہیں۔لاہور آنے سے بے حد ڈرتے ہیں۔ جب اس کی وجہ جاننا چاہی توکہنے لگے’’یار وہاں نہر سے بہت ڈر لگتا ہے ۔نہر پر ڈبل ناکے لگے ہو تے ہیں ‘‘۔’’ڈبل ناکے‘‘؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔’’ہاں بھئی !ایک طرف پولیس کا اور دوسری طرف کھسروں کا۔۔۔۔۔۔
بات دل سے نہیں کرتے دل رکھنے کے لئے کرتے ہیں۔ان کی بات میں بات کم خرافات زیادہ ہوتی ہیں۔بلکہ یہ’’ خر‘‘ آفات ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ان کی بات سنتے وقت ان سے دو گز دور ہوکر کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔اگر آپ دور نہیں ہوں گے تو ان کے منہ سے نکلنے والے پان کی شبنم کے قطرے آپ کے کپڑوں پر اس قدر قیمتی نقش ونگار بنائیں گے کہ آپ سوچ میں پڑجائیں گے کہ سوٹ ڈرائی کلین ہوگا یا پھر فریم۔۔۔۔۔۔زیادہ تر سفر بائی ائیر کرتے ہیں کیونکہ انہیں بائی روڈ یا بائی ٹرین سفراچھا نہیں لگتا۔انہیں ’’بائی‘‘ سفر بھی اچھا نہیں لگتا لیکن جہاز سے سفر اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں ’’رن۔۔۔وے‘‘اچھا لگتا ہے۔رن اور شادی کے بارے میں ان کی یہ حال ہے کہ ایک قریبی دوست نے ان کی شادی کے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پو چھا’’سناؤ بھئی کیا ہوا‘‘؟۔’’اور تو کچھ ہوا نہیں البتہ ایک سال ہو گیا۔۔۔۔۔۔انہوں نے آہ بھرتے ہوئے جوا ب دیا۔کہتے ہیں بیوی دنیا کا سب سے غلط رشتہ ہے جس میں کوئی اعتبار نہیں۔یہ تو شک پہ بھی شک کرتی ہیں کہ کہیں کوئی شک کی بات تو نہیں۔۔۔۔۔۔ایک مرتبہ یہ گھر دیر سے گئے ان کی بیوی نے پوچھا’’ کہاں سے آئے ہو‘‘؟۔کہنے لگے’’ محفل مشاعرہ سے ، شراب پی کر،جوا کھیل کر‘‘۔ان کی بیوی کہنے لگیں’’ نہیں! سچ سچ بتاؤ کہاں سے آئے ہو‘‘۔۔۔۔۔۔
لڑکی سے اتنی جلدی متاثر ہو جاتے ہیں جتنی جلدی لڑکی ان سے اکتا جاتی ہے۔کبھی کسی لڑکی کی بات کو دل پر نہیں لیا۔البتہ لڑکی بلکہ اکثرلڑکیوں کو لیا۔ کبھی بیگم میں اچھی بات تلاش نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی اچھی بات میں بیگم کو کبھی تلاش کیا۔ بیوی کے بارے میں ان کے خیالات ایسے ہی ہیں جیسے بیوی کے ان کے بارے میں ۔بیگم ان کو ہمیشہ ان الفاظ میں یاد کرتی ہے جس میں ان کے قرض خواہ انہیں یاد کرتے ہیں۔البتہ قرض خواہ کبھی کبھی رعایت برت جاتے ہیں۔ہر وقت قرض کے مرض میں مبتلا رہتے ہیں۔کبھی کسی کو قرض دینے کے لئے نہیں ملے۔ اسے بھی نہیں ملے جس کا قرض انہوں نے دینا ہے۔ پیسوں کے معاملے میں نہایت ’’دیانط دار‘‘ ہیں۔ان کی اس دیانط داری کی وجہ سے اکثر لوگ انہیں ’’دار‘‘تک پہنچانے کے لئے بضد ہیں۔لیکن اس میں بھی ایک پرابلم ہے کہ ان کے ہیوی ڈیوٹی ادبی گلے کے لئے رسہ خریدنے کے لئے ’’ڈونر کانفرنس‘‘بلانا پڑے گی۔۔۔۔۔۔ان کا دل ‘ٹائم اور شاعری ہر وقت ہر کسی کے لئے تیار رہتا ہے۔مختلف اوقات کے لوگوں کو مختلف اوقات میں مختلف اوقات سے دیکھتے ہیں۔
ہر وقت چیونگم کا استعمال کرتے ہیں تاکہ بڑا تھوبڑا، تھوڑا ہو سکے۔۔۔چیونگم چبانے سے ان کا منہ تو کم نہیں ہوا البتہ چیونگم کم ہو گئے ۔ ان کے موبائل میں مزاحیہ clipاور خوفناکlipانتہائی وافر مقدار میں مو جو دہوتے ہیں۔ایک دن انہوں نے میری موجودگی میں اپنے موبائل میں کارڈ لوڈ کیا تو آواز آئی’’جاز مینیو میں کافی طویل عرصے کے بعد خوش آمدید۔۔۔۔۔۔انہیں موبائل خریدنے کے لئے جتنی محنت کرنا پڑی اتنی نوکیا والوں کواسے بنانے کے لئے نہیں کرنا پڑی ہو گی۔انہوں نے اپنی تمام تخلیقات کے سارے مسودے ردی کے بھاؤ بیچے تو تب کہیں جا کر موبائل سیٹ لیا۔اب ان کا موبائل ہر وقت بجتا رہتا ہے کیونکہ یہ پروفائل میں جا کر ہر وقت ’’ٹونز‘‘سنتے رہتے ہیں۔ان کے لئے انگلش میں میسج لکھنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ پڑھنا۔دکھی اتنے ہیں کہ اگر کہیں رومن لکھا بھی پڑھ لیں تو رو۔۔۔من سمجھ کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔
ان کی شاعری،مزاح اور ادب جتنا طاقتور ہے ان کی صحت اتنی ہی کمزور ہے۔ان کی صحت کی مندی کے بارے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ چونکہ یہ ہر سال ’’سالا‘‘نہ ٹیکس دیتے ہیں شاید اس لئے کم زور ہیں۔گانے بھی لکھتے ہیں بلکہ’’ لیکتے‘‘ ہیں۔انہیں گانا گانے کا بھی بے حد شوق ہے۔بقول ’’شاہ جی‘‘ایک مرتبہ ایک محفل میں یہ گانا گا رہے تھے کہ ایک شخص اٹھا اور اس نے پستول نکال لیا ۔انہوں نے ڈر کے مارے گانا بند کر دیا ۔ اس شخص نے کہا کہ تم گانا جاری رکھو میں تو اس بندے کو ڈھونڈ رہا ہوں جو تمہیں گانے کے لئے لے کر آیا ہے۔۔۔اسی طرح ایک اور جگہ گانا گانے گئے ۔انہوں نے گانا ختم کیا توا یک شخص نے اٹھ کر کہا جناب دوبارہ گائیں۔انہوں نے دوبارہ گایا۔گانا ختم ہو ا تو اس شخص نے کہا ’’دوبارہ گاؤ‘‘۔انہوں نے پھر گایا۔گانا ختم ہوا تو اس شخص نے پھر اٹھ کرکہا ’’ گانا پھر گاؤ’’۔انہوں نے خوش ہوتے ہوئے اس شخص سے کہا’’لگتا ہے آپ کو گانا بہت پسند آیا ہے‘‘؟۔’’نہیں جب تک تم صحیح نہیں گاؤ گے میں کہتا رہوں گا‘‘۔۔۔۔۔۔اس شخص نے جواب دیا۔
انہیں سونا بے حد پسند ہے ۔کبھی کسی جگہ تو کبھی کسی کے ساتھ۔۔۔جبکہ بقول ’’شاہ جی‘‘ان کا حال تو یہ ہے کہ’’جہاں دیکھی توا ،پرات وہیں گزاری ساری رات‘‘۔۔۔۔۔۔ لاہور کا’’ٹی پی کل‘‘ ماحول بے حد پسندکرتے ہیں۔انہیں لا ہورر کے مصالحوں اور محلوں میں ’’شاہی‘‘ بے حد اچھا لگتاہے۔۔۔ لال رنگ ان کا پسندیدہ کلر ہے بعض مرتبہ تو اسے ندیدہ بن کر دیکھنے لگتے ہیں بشرطیکہ وہ نصیبو’’لا ل‘‘ کی شکل میں ہو۔۔۔ یہ اکثر الفاظ کو کھا جاتے ہیں لیکن موقع دیکھ کر۔لاہو ر آکراکثر کیمپس روڈ پر فروٹ شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں۔وہاں موجود’’ سیلز گرل‘‘ کو ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ’’مجھے جان دے دو‘‘۔اس بات سے ان کی بہت سبکی ہونی تھی وہ تو بڑی مشکل سے اس ’’سیلز گرل ‘‘کو سمجھایا کہ یہ جامن کو الفاظ کھانے کی عادت سے مجبور ہو کر جان کہہ رہے ہیں۔۔۔ بلڈنگ اور باڈی بلڈنگ بے حد پسند ہے۔یہ تو باڈی بلڈنگ کو بھی بھا ۔۔۔ دی۔۔۔بلڈنگ کہنے سے نہیں چوکتے۔جسم بے حد کس’’رتی‘‘ہے اور جان بھی ایسی ہی ہے۔سنا ہے جنت میں شاعروں کا داخلہ ممنوع ہے کیونکہ انہوں نے وہاں بھی شعر سنا سنا کر جنتیوں کو دوزخ میں جانے پر مجبور کر دینا ہے۔لیکن یہ دوزخ میں جانا چاہتے ہیں۔کہتے ہیں میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اللہ میاں نے بیوی سے بڑا کونسا عذاب بنایا ہے۔۔۔۔۔۔
ادب میں ان کا قد جتنا طویل ہے طبیعت اتنی ہی عاجز ہے۔یہ صرف نام کے اعتبار ہی نہیں ہیں ان کا کام بھی ہر لحاظ سے اعتبار کرنے کے قابل ہے۔ا ن کا کام دیکھ کر واقعی ہی لگتا ہے کہ یہ کام دو بندوں نے مل کر کیا ہے جن کا نام اعتباراور ساجد ہے۔