آخری بے لوث پاکستانی شخصیت عبدالستار ایدھی کے نام …. منصورآفاق
تازہ غزل
آخری بے لوث
پاکستانی شخصیت
عبدالستار ایدھی کے نام
منصور آفاق
درد کی دہلیز پر جی بھر کے رو
بوجھ ہلکا جی کا کر جی بھر کے رو
ہمکلامی آنسوﺅں سے جاری رکھ
اک اکیلا رات بھر جی بھر کے رو
پھر گلے لگ کے کسی رہرو کے ت±و
بین کر اے چشمِ تر جی بھر کے رو
رونے کو پھر جی کیا ، پھر ساتھ دے
آسماں! بارِ دگر جی بھر کے رو
ا±سکے ہاتھوں کے نشاں محفوظ ہیں
چوم کر دیوار و در جی بھر کے رو
تیری منزل سو گئی ہے قبر میں
راستوں کے ہمسفر جی بھر کے رو
ویڈیو اب دیکھ گزرے وقت کے
ا±س کے چنچل گیت پر جی بھر کے رو
دوستوں کی عید ہے ، خانہ خراب
بزم سے اٹھ جا کے گھر جی بھر کے رو
دشت میں منصور چل سیلاب لا
چل مرے آشفتہ سر جی بھر کے رو
توڑ کر جام و سبو جی بھر کے رو
پاگلوں کی طرح ت±و جی بھر کے رو
رو کچھ اتنا ،رو پڑے جائے نماز
دیدہ ءدل ، قبلہ رو جی بھر کے رو
جوگ میں کچھ درد کے دوہڑے سنا
اے معنی کے گلو جی بھر کے رو
کہہ رہا ہے بارشوں کا شور و غل
بادلوں کی گفتگو جی بھر کے ر±و
اِس اداسی کے تسلسل کا۔ میاں
حل یہی ہے بس کبھو جی بھر کے رو
کال کر ا±س کو موبائل فون پر
یار کے پھر روبرو جی بھر کے رو
یاد کر رنگوں بھری پکنک کی شام
اور کنارِ آبِ جو جی بھر کے رو
آخری کرنیں پہن کر دھوپ کی
شام ہوتے ہی لہو جی بھر کے رو
س±ن میانوالی کی سندر ریختہ
میر کو اے لکھنﺅ جی بھر کے رو
س±ن فریدی دکھ پٹھانے خان سے
رات بھر منصور ت±و جی بھر کے رو
کر روایت پھر بیاں جی بھر کے رو
راویہ! کیاسسکیاں ، جی بھر کے رو
الوداع اے روشنی اے روشنی
آخری ہیں ہچکیاں جی بھر کے رو
بیٹھ ،ماڈل ٹاﺅں ، آ، فٹ پاتھ پر
ظالموں کے درمیاں جی بھر کے رو
نائبِ اللہ کے حالات پر
آسماں اے آسماں جی بھر کے رو
اٹھ لگا دروازے کی زنجیر کو
اور بجھا کر بتیاں جی بھر کے رو
شام ڈھلتے ہی کسی چوپال پر
داستان در داستاں جی بھر کے رو
ہول آتا ہے ترے آثار سے
عمر کے خالی مکاں جی بھر کے رو
اِس غزالِ کم سخن کی لاش پر
دشت کی ریگ رواں جی بھر کے رو —