ظفر لنڈ کی ٹارگٹ کلنگ اور سرائیکی قوم پرستوں سے شکایت
کامریڈ اور سرائیکی دھرتی کے عظیم فرزند ظفر لنڈ کو ہدف بناکر شہید کر دیا گیا ۔ یہ سانحہ دھرتی کیلئے نا قابل تلافی نقصان ہے ۔ نہ جانے کیوں ۔۔۔؟ بزدلوں کو قلم و شعور سے وابستہ افراد اور دانشوروں سے خطرہ ہے ۔ دانشور تو عدم تشدد کے قائل ہیں ۔ پھر ان کی جان لینے کے ظالمانہ عمل کا فلسفہ سمجھ سے با لا تر ہے ۔ زمین پر فساد پھیلانے والے محفوظ قرار دیئے جا چکے ہیں ۔ ان کی سلامتی کی ذمہ داری ریاست بھی لے چکی ہے ۔ یعنی ریاست کے نمائندے وہی لوگ تصور کئے جاتے ہیں جو عمل سیاست و مذہب میں شر اور فساد کے سانپ کو اپنی آستینو ں میں چھپا کر رکھتے ہیں اور موقع ملتے ہی اپنے ہم وطنوں میں زہر قاتل انجیکٹ کر دیتے ہیں ۔ جاگیر دار سیاستدان، فرقہ باز ملا ، منافق اسٹبلشمنٹ اور کرپٹ بیو رو کریسی یہ سب ایسے اذہان پر مشتمل گروہ ہیں جو ریاست نہیں چلا رہے ۔ اپنا ذاتی کارو بار چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج غیر ملکی بینکس اس حوالے سے اپنے طور پر شہادت دے رہے ہیں اور پانانہ پیپرز چیخ چیخ کر ثبوت فراہم کر رہے ہیں کہ ان خونخوار سیاستدانوں کے یہ کر توت ہیں ۔ جنھیں تم ایماندار قرار دیتے تھے۔ جو حقیقت میں ووٹ کے حقدار ہیں ہی نہیں ۔ لیکن ہم پاکستانیوں کے نزدیک سیاست کے حقیقی اہل یہی جاگیر دار اور سر مایہ دار سیاستدان ہیں ۔ جن کی بد معاشی اور بد عنوانی کی مثالیں عام ہیں ۔ لیکن ہم ہیں کہ اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں۔باہر کا شور ہمیں سنائی نہیں دے رہا ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یہی بدامنی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور یہی شورو غوغا ہمارے آنگوں میں داخل ہو کر ہمیں نشانہ بنا رہا ہے ۔ ہم قتل ہو رہے ہیں اور وہ بھی ناحق ۔۔۔۔! دھرتی اپنے غیرت مند شہید بیٹے ظفر لنڈ کیلئے تا دمِ آخر روتی رہے گی اور ان جیسا کبھی پیدا نہ ہوگا ۔
ایک ایسا دور کہ جب ہمارا معاشرہ رجعت و قدامت پرستی کا شکار ہے ۔ جہاں غیرت ، مذہب ، فرقے ، مسلک ،ذات ، برادری اور حتیٰ کہ اختلاف رائے کی بناپر دھرتی زادوں کو نا حق قتل کر دیا جاتا ہے ۔ میں دھرتی کے تحفظ اور دھرتی زادوں کے حقوق کی بازیابی کی بات کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہدنیا میں اگر کسی نے روایت سے بغاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیرت مند ہونے کا ثبوت دیا تو اس کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ظفر لنڈ کے ساتھ ہوا ۔تعجب ہے کار پوریٹ میڈیا پر کہ جو ایسی خبروں اور واقعات کو شہ سرخی میں جگہ دیتا ہے جن سے جنسی خواہش ابھرتی ہے ۔ لیکن شہید ظفر لنڈ جیسی لیجنڈ شخصیت کو فرنٹ پیجز پر جگہ نہ دی اور نہ ہی ان کے نیشنلزم اور سماجی سطح پر خدمات کے حوالے سے کوئی ٹاک شو کئے ۔ اور نہ ہی ظفر لنڈ کی ٹارگٹ کلنگ کو کسی ٹاک شو میں جزوی جگہ دی ۔ ہے ناں افسو س کی بات ؟ اس وقت سرائیکی دھرتی سے تعلق رکھنے والے قلم کار قومی اخبارا اور ٹی وی چینلز میں کلیدی عہدوں پر کام کر رہے ہیں ۔ جن کی ذمہ داری تھی کہ ظفر لنڈ شہید کو خراج تحسین پیش کرتے اور اس سلسلے میں وسیع احتجاج کرتے ۔ یہاں سرائیکی قوم پرستوں اور دانشوروں سے راقم کی شکایت ہے کہ ظفر لنڈ کو ہدف بناکر قتل کرنے پر خواجہ غلام فرید کوریجہ کی سر براہی میں کوٹ مٹھن میں دربار فرید پر مسلسل کئی دن تک پر امن احتجاج کیا جن کی گونج ایوان بالا میں سنی گئی۔ اسی طرح بعض ترقی پسند دانشورں اور صحافیوں نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بھی ترقی پسنددانشور ظفر لنڈ کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج نوٹ کرایا تھا ۔ لیکن ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے کہ شہید ظفر لنڈ کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔ ورنہ شدت پسندانہ نظریات ہماری سماجی و ثقافتی ترقی کا قتل عام کرتے رہیں گے ۔