سعید جمال کا رنگِ جمالِ سخن
سعید جمال کا رنگِ جمالِ سخن
ڈاکٹر شاہدہؔ دلاور شاہ
دانش ورانِ سخن
یوں تو دنیا میں ہر بندہ اپنی اپنی سطح کا تخلیق کار ہوتا ہے ۔ان میں سے کچھ تخلیق کار اعلی سطح کی تخلیقات پیش کر کے اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔ جس طرح زبانیں لفظوں کا لین دین کرتی ہیں اسی طرح ادیب بھی قدیم و جدید ادب سے انسپائر ہوتا ہے۔ یہ رویہ عام اور جائز ہے مگر بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس سارے ماحول میں اپنی دنیا آپ بناتے ہیں۔ان ہی لوگوں میں ایک نام سعید جمال کا ہے۔سعید جمال کا اپنا تعلق بھی ایسے گھرانے سے ہے جو لوگوں میں علم اور سلیقہ بانٹتے ہیں۔
سعید جمال ۱۹۵۲ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم فارسی کے ایک اچھے استاد تھے۔۱۹۴۷ء میں والدین مشرقی پنجاب سے یہاں آئے پھر ۱۹۶۹ء سے لاہور میں آباد ہوئے۔سعید جمال کو بچپن سے ہی فنون لطیفہ سے دلچسپی تھی سو آپ نے نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلہ لے لیا اور یوں آپ کا ادبی ذوق پروان چڑھا۔شاکر علی جو کہ فنون لطیفہ کا ایک سائبان ہیں ان سے شرف قبولیت حاصل ہوا۔ ان کے ہمراہیوں میں سے نیرہ نور،قیصر فاروق،نیر علی دادا،خالد اقبال اور غلام مصطفے جیسے جید فن کار تھے ۔سعید جمال ایک قلندر آدمی ہیں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت،مشقت اوراپنی لیاقت کو کہیں کیش نہیں کروایا۔سعید جمال نے بتایا کہ تیس سال قبل انہوں نے ایک بابا صاحب سے معرفت کا راستہ پوچھا پھر اس کے ساری زندگی تعارف کی بجائے عارف کی فکر میں وقف کر دی۔
سعید جمال اسم با مسمٰی شاعر ہے۔ نثر کی طرح ان کی شاعری کا بھی اپنا ہی رنگ اور حُسن ہے۔ان کا شعری مجموعہ ’’جھرمٹ‘‘ شاعری کے گلستان میں اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ۲۰۱۲ء میں چھپا۔ان کی ہر تصنیف میں جمالیات کی رنگا رنگی غالب ہے۔ جذبوں کی رعنائی اور سوچ کی گہرائی کے ساتھ ساتھ مصرعوں کی بنت کاری اور لفظیات کا حسین استعمال پڑھنے والے کو ان سے دور نہیں ہونے دیتا۔ ان کی نظموں کا ،قاری کے دل و دماغ پر دیر تک اثر رہتا ہے ۔ انکی شاعری میں بھی صوفیانہ وجد،ان کے ہونے کا پتہ دیتا ہے۔سریلے سروں میں رقص کرتی ہوئی شاعری اپنا وجود خود منواتی ہے۔ اناسی غزلوں اور انیس نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ پڑھتے ہوئے قاری اپنی دنیا میں سفر کرتا ہے، اسے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی اجنبی دیس میں مارا مار اپھر رہا ہو۔ویسے بھی خود شناسی ازل سے ہی انسان کا مرغوب ترین شغل رہا ہے۔لکھنے والا اگر شفاف دل بھی ہو، قلندروں صوفیوں کی طرح دنیا داری سے بے نیاز بھی اور جمالیاتی حس سے مالا مال بھی ہو تو ،ان محاس سے منور ہو کر کلام کرے تو شعر کی دنیا میں جو سرور ملتا ہے وہ شاید ہی کسی اور فن میں میسر ہو۔انہوں نے غزل گوئی اور مشاہدے کو استاد کیا اور شعر تخلیقی کی دنیا میں چل پڑے ۔ان کا ایک خوبصورت شاہ کار دیکھیے:
کیا کہوں اپنی کہانی کیا کہوں
منہ دکھا کر منہ زبانی کیا کہوں
لے گیا وہ جسم و جان کا سب فریب
دی خضر نے کیا نشانی کیا کہوں
وصل تیرا خواب تھا کہ تا خمار
یک وجودِ آگ و پانی کیا کہوں
بَن کے پائل تیرے پاؤں میں سجا
پھر بھی تجھ کو بد گمانی کیا کہوں
تجھ کو چھونا بھی ہوا لطفِ گناہ
تُف تجھے اے زندگانی کیا کہوں
ایک سجدے کے عوض دنیا کے رنگ
قصہ آدم کا قرانی کیا کہوں
خلد سے پہلے بھی تھا اپنا مکاں
روح مری کتنی پرانی کیا کہوں
ہے مقید بے ثباتی میں وجود
کتنے پل کی تھی جوانی کیا کہوں
آئینہ دیکھے نگاہِ مست کو
ہے جمالؔ ِ جاوِدانی کیا کہوں
سعید جمال نے ادب کی مختلف اصناف میں اپنی انفرادیت قائم رکھی ہوئی ہے۔
ان کا ایک ناول ’’حُسن حوا‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ یہ ناول ۲۰۱۴ ء میں پردہ پبلی کیشن نے چھاپا تھا۔اس ناول کے مُکھڑے پر ’’تصوف سے بالا فقر کے رومانوی حسن کو اجاگر کرتا ناول ، حیرت اور یقین کا حسین امتزاج ‘‘ لکھا ہوا ہے جس میں ایک تجسس بھی ہے اور حیرت بھی ، شوق بھی ہے اور دلچسپی بھی۔ سعید جمال کا کمال یہ ہے کہ وہ صاحب فکر اور صاحب علم ہونے کے باوجود اپنے عالم فاضل ہونے کا پیپا نہیں پیٹتے ۔ وہ انتہائی صابر شاکر اور حلیم انسان ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں کہیں ’’میں میں ‘‘ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔اپنا ناول آغاز کرنے سے قبل لکھتے ہیں کہ میری یہ عاجزانہ کاوش ’’ حسن حوا‘‘آپ کے ہاتھوں میں ہے عاجز کی عرض اور وضاحت یہ ہے کہ اس ناول پہ میں کسی صاحب الرائے خصوصاً تصوف اور فقر بارے لکھنے والے احباب کی آرا سے فیض یاب نہیں ہو سکا۔در حقیقت بحیثیت مصنف میں نے خود ہی یہ ٖفیصلہ لیا، چوں کہ میری رائے میں عموماً قارئین تجریدی طرز کا تصوف یا تخیلاتی تصوف پڑھتے رہتے ہیں ، ایک پہلو پچھلی تین دھائیوں میں لکھنے والے کچھ حضرات کا انداز مشکل پسندی بھی ہے۔ ’’حسن حوا‘‘ نہ صرف عام قاری بلکہ ان محترم متعلقین سے بھی ایک مکالمہ ہے ۔ میرے کسی بھی قاری کی رائے چاہے وہ کسی بھی مرتبہ پر فائز ہو مجھے اپنے اندر مزید جھانکنے کی جانب لے جائے گی۔ سعید جمال دل و نظر کے پاکیزہ انسان ہیں ۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ہماری سادہ لوح عوام تصوف، معرفت اور کائنات کی ثقیل گتھیاں نہیں سلجھا سکتی اور نہ ہی آسانی سے سمجھ سکتی ہے ،سو انہوں نے آسان پینترا ا ختیار کیا ۔وہ بات بلکہ ہر پرانی بات کو نئے آہنگ کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناول’’حسنِ حوا‘‘ کے بارے میں یہ بھی کہا کہ داستان حق کو قلم بگوش ہونا ہی تھا، چاہے کسی اور قلم کار کے ہاتھوں ہوتا ۔ وہ بات بہ بات کسر نفسی سے کا م لیتے ہوئے بڑی سہولت سے یہ بات کہہ جاتے ہیں کہ میں نثری آداب سے واجبی سی واقفیت رکھتاہوں اور اگر ان کی کوئی تحریر مروجہ نثر تقاضے پورے نہ کرسکے تو قاری پر معاف کرنا واجب ہے۔عشق و معرفت سے لبریز حسن حوا پڑھ کر دل آگہی کی مستی میں جگہ تلاشنے کی جسارت کرتا ہے۔
سعید جمال اس ناول کو ورطہ تحریر میں لانے سے قبل اپنی کیفیتِ خامہ فرسائی کی بابت رقم طراز ہیں کہ
کچھ سالوں کی بات ہے کہ گرمیوں کی ایک شب اُس محل نما صدیوں پُرانی کٹیاکی ایک صف پر میں بھی بیٹھا تھا ، اس کی محرابی اونچی چھت سے لٹکا پنکھاخاموشی میں بہت آہستگی سے گھوم رہا تھا۔ جانے محفل تھی یا کہ دربار لگا ہوا تھا، کہ اچانک بابا صاحب کی آواز کانوں میں پڑی ،’’ بیٹا اپنے اصل کی پہچان میں ہی تو جنت رکھی ہے‘‘کان سروں سے بھر گئے، منہ میٹھا سا ہونے لگا،بدن جیسے ڈھیلاپڑ گیا،من میں سوال اٹھنے لگا،جی چاہا کہ پوچھوں کہ بابا دروازہ ء اصل تک کیسے پہنچوں؟ لیکن یہاں دل نے مجھے کلام و سوال سے روک دیااور کہا کہ حدّادب پہ کھڑا رہ ، بے صبرا نہ ہو،فقیر کی بات اپنے وقت پر عیاں ہو ہی جاتی ہے۔ میں نے سر جھکا لیا اور اپنے سوال کو صف کے نیچے کی گرد کے سپرد کر دیا۔ میں احقر عارف باللہ کے نقشِ پا دیکھنے کے لائق نہیں ، جستجو اور طلب کا فرق جانتے ہوئے بھی راہ شریعت سے ایک عاجز مسلمان کی طرح کی واقفیت ہے۔ طریقت کے انداز کچھ دیکھے سنے سے ہیں ۔حقیقت حق ہوتے ہوئے بھی پردہ در پردہ ہے، اور معرفت تو زیب ہی ربِ بے نیاز کو دیتی ہے۔سعید جمال ایک فقیر کی ماند دنیا کو دیکھتے ہیں اور خدا پاک کی ظاہری و غیبی طاقت کے اعتراف میں کہتے کہ کیا مجھے نشست سجانے کے آداب نہیں آتے ؟یا مخلوق خدا سے مکالمہ کرنے میں دشواری ہے ؟ شاید کہ اس مہربان ہستی کے اُسی فرمان کو دہراتے دہراتے قلم اٹھا لیا ہے یا کسی نے تھما دیا ہے ۔ ورنہ میں تو ٹھہرا ایک عام سا متوالا شاعر۔۔۔۔۔سو قلم کی زبان،قاری سے ہم کلام اور ملامت کا طوفان سر آنکھوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
سعید جمال کا نظمیہ مجموعہ ’’ نور نظم‘‘جو ۲۰۱۶ء میں شائع ہوا ۔یہ نظمیں گہرے انسانی تجربے کا پیش منظر ہیں۔جس میں پڑھنے والے کو مذہب سائنس، ما بعد الطبیعات اور انسانی حقیقت کے گورکھ دھندے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس انسانی فلسفے کی نئی تفہیم میں وہ قاری کو اپنے ساتھ ساتھ اس سفر میں محو سفر رکھتے ہیں۔ یہ سفر شاعری کی روایت میں ایک نیا رنگ بھرتا ہے۔ ان کی یہ کتاب جدید طرز اسلوب کی شاعری سے مزین ہے جو روحانی فکر سے مالا مال ہے ۔ عہد حاضر میں جہاں ہجوم کا ہجوم مادیت کی طرف مراجعت فرما چکا ہے وہاں تصوف اور روحانیت کی پل صراط کے راہی، سعید جمال جیسے مسافر کہیں کہیں اپنی موج میں، معرفت کے سمندرمیں اپنی انا اور نفس سے جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔اس کتاب’’نور نظم‘‘ میں کل پچپن نظمیں ہیں ۔ ہر نظم پڑھنے والے کو الگ طرح سے متاثر کرتی ہے ان نظموں کا تنوع اپنے اپنے انداز سے معرفت و لطف کے در وا کرتا ہے۔ عشق و سرور میں ڈوبی ہوئی ان نظموں میں سے ان کی ایک نظم ’’عاشقی ‘‘ کے عنوان سے یوں ہے:
مراسانس ہے دمِ عاشقی
مری ہر ادا غمِ عاشقی
یہ مکاں زماں سبھی ربط میں
ہے قیام روح صف عاشقی
مری یاد یوم الست ہے
مرا ہجر ہے در عاشقی
کوئی لوٹ آئے کہاں اِدھر
کوئی لوٹ جائے کہاں اُدھر
مرے جسم و جاں میں سما چکا
ترا حرفِ کُن گُلِ عاشقی
مجھے حسنِ حوا ستائے ہے
یہ ستر کہاں مجھے بھائے ہے
وہاں بے نیازی میں قرب تھا
یہاں بے نیازی میں عاشقی
مرے گھر میں آگ تھی عشق کی
وہی ہجر تھا وہی قرب تھا
مجھے تو نے توبہ سکھائی کیوں
وہی نار سانس کی تار تھی
مراسانس ہے دمِ عاشقی
مری ہر ادا غمِ عاشقی
سعی جمال کی۲۰۱۶ء میں شائع ہونے والی ایک اور تصنیف ’’کوزہء کُل‘‘ ہے ۔یہ ساری کی ساری کتاب بندے کو انسان بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ زندگی سمجھنے، اسے گزارنے اور اس کے ودیعت کرنے والے کی معرفت کی تفہیم ہوتی ہے۔نثری اعتبار سے سہل ممتنع میں بات سمجھنے سمجھانے کا یہ ایک بہترین نسخہ ہے ۔ جیسے جیسے قاری اس کتا ب کو پڑھتا جاتا ہے اسے اپنی زندگی کی رکاوٹوں کا پر سکون حل ملتاجاتا ہے۔یعنی مہمات اور دکھوں سے بھر پور حیات کو آسانیوں میں بدلنے کی آ سان کوشش اس میں مضمر ہے۔اس کتاب میں انہوں نے موضوعات ، ان کا مختصر جائزہ اور ان کی مختصر انداز میں تفہیم کی ہے۔ انہوں نے اس میں کئی دریاؤں کو صحیح معنوں میں کوزوں میں بند کیاہے۔ اس کتاب کو ہر عمر کا قاری پڑھ کر زندگی کی باریکیاں سمجھ سکتا ہے۔اس کتاب کا ایک ایک موضوع گو بہت آسان ہے مگر پڑھنے اور سمجھنے والے کو بے انتہالطف دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’نوجوان ‘‘ کا موضوع دے کر کہتے ہیں کہ ’’جسم انسان بدن کا چست لیکن عقل کا کمزوراور اپاہج ہوتا ہے‘‘۔ایک موضوع’’ مشاہدہ ‘‘ کی تفصیل لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’صاحب مشاہدہ کو اسی بات کی خبر دینابے کار ہوتا ہے‘‘۔جسم کے بارے میں ان کا قول دیکھیے:’’بغیر روح کے جسم کس قدر ذلیل ہے کہ اسے مٹی میں دفن کر دیا جاتا ہے‘‘۔ لفظ’’ خیال ‘‘ کے بارے میں کہا کہ ’’انسان کے دماغ میں جو خیال ہوتا ہے وہ لفظوں کو اسی طرف لے جاتا ہے‘‘۔ انسان کی دنیا میں ساری زندگی سوالوں سے بھری ہوئی ہے۔سعید جمال ’’سوال ‘‘ کو موضوع رکھ کر کہتے ہیں ’’کسی چیز کا دریافت یعنی سوال کرنا اس چیز کا آدھا علم ہے‘‘۔کتاب کیا ہے یقین مانیے ہنر اور گُنوں سے بھری ہوئی ہے۔ نہ کوئی حکم، نہ کوئی زبردستی اور نہ ہی کوئی منطق پیش کی ہے بس لطیف پیرائے میں آج کے دور کی مشکل ترین حیات کی گرہیں کھولیں ہیں۔