ہورہی ہیں پھرخرافاتِ خرافہ کچھ نہ کچھ
کہہ رہا ہےموسم ِدارالخلافہ کچھ نہ کچھ
دیکھئے ممکن نہیں اب فون پرہجر و وصال
گفتگو اب لازمی ہےبالمشافہ کچھ نہ کچھ
اس نے کیوں اشیائے خورد و نوش کو مہنگا کیا
کرنا تھا تنخواہ میں جس نے اضافہ کچھ نہ کچھ
یہ وہی لڑکی ہے جس نے مجھ کو بھیجے تھے گلاب
ٹھیک لگتا ہے مجھے اپنا قیافہ کچھ نہ کچھ
پھر کسی اہل قلم کی خاصی فربہ جیب میں
کہہ رہا ہے ایک پتلا سالفافہ کچھ نہ کچھ
کس لئے منصور اتنی ہے پریشاں شامِ ہجر
دشت میں پھیلی ہے شایدمشکِ نافہ کچھ نہ کچھ
پڑ رہے ہیں ریگ جاں پر پائے ناقہ کچھ نہ کچھ
طے ہوا اُس دل کاممنوعہ علاقہ کچھ نہ کچھ
منہ دکھانا ہے غریبوں کے پیعمبرکو مجھے
گھر میں رہنے دو مرے تم فقرو فاقہ کچھ نہ کچھ
مجھ پہ بھی نازل قصیدہ بردا کی ہوں آیتیں
دیجئے کچھ میرے مولا میرے آقا کچھ نہ کچھ
جانتی ہیں کھلتی کلیاں بھی مراحل درد کے
نازکی بھی آشنائے کار ِ شاقہ کچھ نہ کچھ
چاہتا ہوں مجھ پہ بس اُس نرس کی ڈیوٹی رہے
ہو رہا تھا درد میں جس سےافاقہ کچھ نہ کچھ
یاد ہے بگ بینگ ایسا کوئی خاکہ کچھ نہ کچھ
ہے کہیں یاداشت میں پہلا دھماکہ کچھ نہ کچھ
اب بھی پٹ سن کی نظر آئیں کہیں کچھ بوریاں
اب بھی پاکستان میں موجود ڈھاکہ کچھ نہ کچھ
شیشہ پہلی بار جب ٹکرایا تھا پتھر کے ساتھ
ذہن میں ہےاُس چھناکے کا جھماکہ کچھ نہ کچھ
ورنہ تو اطلاق ممکن ہی نہیں قانون کا
چاہئے کچھ بستیوں میں چوری ڈاکہ کچھ نہ کچھ
رہ رہا ہے اِس گلی میں اک عوامی آدمی
کوئی گارد ، کوئی پہرہ کوئی ناکہ کچھ نہ کچھ
کیسے یہ منصور میں عشق و خرد کا اتصال
بول او دیدہ ورا، او سینہ چاکا کچھ نہ کچھ
مجھ تلک بھی آئے کچھ برقِ تجلیٰ کچھ نہ کچھ
کوئی گجرا کوئی مندری کوئی چھلاکچھ نہ کچھ
روز رکھ جاتے ہیں دروازے پہ کیوں یہ آپ پھول
کہہ رہا ہے دیکھئے سارا محلہ کچھ نہ کچھ
روز کھاتے ہیں شکر مل کر شکر گنج اور میں
روز رکھتا ہے کوئی زیرِ مصلیٰ کچھ نہ کچھ
پھر ہے آشفتہ سری کے سامنے آئی ہوئی
دیجئے دیوار کو دستِ تسلیٰ کچھ نہ کچھ
کتنے دن سے کوئی سچا شعر اترا ہی نہیں
فرش سے آزردہ ہے عرشِ معلیٰ کچھ نہ کچھ
تم غنیم ِحلقہ زن پر فائرنگ جاری رکھو
ہے ابھی گودام میں منصور غلہ کچھ نہ کچھ
منصور آفاق