گلیوور ،فیس بک اور تحقیق نسواں ………. تحریر :. ثنا بتول
گلیور چار دنیاؤں کے سفر کی وجہ سے مکمل طور پہ مردم بے زار ہو چکا تھا۔ الٹی سیدھی باتیں سن کر تحقیقات دیکھ کے اور چائے کی پیالی میں طوفانوں نے اس کا دماغ بالکل خراب کر دیا تھا۔ خلاؤں میں گھورتا خود بخود ہنستا اور رو دیتا۔ انہیں دگرگوں حالات میں اس کے ہاتھ فیس بک لگی وہ حیران بھی تھا اور بے تحاشا خوش بھی کہ دنیا میں انسانیت باقی ہے چند دن سکھ کے گزرے اپنی بے چین طبعیت سے مجبور مختلف ممالک کی کھوج کے سلسلے میں پاکستانیوں سے دوستی کر بیٹھا۔ کچھ سے چھپ چھپا کے باتیں ہوئی پھر طبعیت سے مجبور اس کی دیوار اس کی دیوار یاترا شروع ہو گئی۔ بہت متاثر ہوا اس دنیا میں لوگوں نے اپنی اکٹویٹی کو کم اور عقل و دانش کو زیادہ بیان کیا تھا۔ مارک زکر برگ کو کھلا چیلنچ تھا کہ فیس بک دانش کدہ بن سکتی ہے اس نے خوامخواہ اسے عام لوگوں کے ہتھے چڑھایا اور سوشل میڈیا کا نام دیا۔
خیر اسی سوچ اور خوشگوار حیرت کے ساتھ وہ دانائی سیکھ رہا تھا۔ کہ اچانک اس کی نظر لفظ بچی پہ پڑی۔ سوچا معصوم سی بچی ہو گی لیکن جب تفصیل پڑھی تو حیران رہ گیا۔ گہرائی میں گیا تو معلوم پڑا کہ یہ تو جیتی جاگتی عقل و شعور والی صنف کا پیار کا نام ہے جو کائنات میں رنگ بھرنے اور مرد حضرات کا منورنجن کرنے کے لیے دنیا میں آئی ہے۔ اس کے پیار کے نام تو تھے ہی سب کا پسندیدہ موضوع بھی یہی تھا۔ پاکستان میں عورت کی یہ اہمیت دیکھ کے اس کا دل بھر آیا کہ دنیا کیا غلط سلط باتیں کرتی ہے پاکستان کے بارے میں۔ اتنی اہمیت تو مہذب دنیا میں بھی عورت کی نہیں ہے جتنی یہاں ہے۔ اس کی باہر کی زندگی سے لے کر انتہائی ذاتی موضوعات پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے۔ اس کا اٹھنا ،بیٹھنا ،بات کرنا ،سونا جاگنا سب ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے نک نیم بھی اتنے ہی پیار سے رکھے جاتے ہیں جتنی توجہ سے پالتو جانوروں کے۔ ایک طرف بچی والے تھے کہ دیکھ کیا پیاری بچی ہے تو دوسری طرف اس کو چھلکے میں لپٹا چلغوزہ بنانے والے۔
مقصد ایک ہی تھا منو رنجن ،منورنجن اور مزید منورنجن۔ اس پہ ہونے والی بحث نے ذہن پہ اچھا اثر نہیں کیا تھا وہی ماضی جس سے اسے نفرت تھی در آیا۔ وہ چھوٹی مخلوق یاد آ گئی جو انڈے کو سیدھی یا الٹی طرف توڑنے کے جھگڑے میں اتنا الجھی کہ سب بھلا بیٹھی تھی۔ اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے پہ بغیر ثبوت اور جنگ کی وجوہات کے چڑھ دوڑی تھی۔ کہیں وہ لوگ بھی یادوں میں ابھرے جو سائنس لیبارٹری میں لا یعنی تجربات میں الجھے تھے۔ اندر کی تلخی ابھری لیکن تھپک کے سلا دیا کہ ہنسی مذاق کی بات ہے ہر وقت منفی کیوں سوچتے ہو۔ اکیسویں اور سترہویں صدی کے لوگوں میں کچھ تو فرق ہو گا۔ فیس بک لاگ آوٹ کی اور سو گیا۔
اگلے دن تو کمال ہی تھا موضوع کی اہمیت کا اندازہ اس پہ لکھے جانے والے تبصروں اور بلاگز سے ظاہر تھا۔ جس شر پسند نے یہ حرکت کی تھی وہ پوسٹ ڈیلیٹ کر چکا تھا لیکن سکرین شارٹس کا زمانہ ہم نہ ہو گے ہمارے قصے ہوں گے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ایک دوڑ لگی تھی کہ کون زیادہ بہتر انداز میں اس اہم موضوع کے بخیے ادھیڑ سکتا ہے۔ ذہین لوگ دونوں جانب تھے ان کی ذہانت کے کیا کہنے جو عورت کو چلغوزہ کہنے پہ سیخ پا تھے کہ اس استعارے کو شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دیا اور حقیقی ذہانت اس کی تھی جس نے یہ استعارہ ایجاد کر کے گھر بیٹھے شہرت کما لی۔ گلیوور ایک بار پھر کبھی ہنس رہا تھا کبھی رو رہا تھا۔ اس پانچویں دنیا کا اکیسویں صدی کا سفر اسے زیادہ مہنگا پڑ گیا تھا۔ اس کا اعتماد انسانیت سے ایک بار پھر اٹھ چکا تھا۔ بہت روکا اکاؤنٹ ڈی اکٹیوویٹ مت کرو، نہیں مانا۔ بتایا بھی کہ ہم بھی زندہ ہیں اور اکاؤنٹ رکھتے ہیں۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک ہی اپنے مزاج کا بندہ تھا۔ ہمیں تنہا کر کے کسی اور دنیا کی طرف نکل گیا۔ پاگل نہ ہو تو۔ خیر چھوڑیں یہ بتائیں ادب میں استعارہ متعارف کس نے کروایا تھا؟ اصل مجرم وہی ہے۔