شوہرِ مظلوم
_____________ فیروز نظام الدین
( ایستادہ ایک بڑی کوٹھی کے گیٹ پر ایک شخص کھڑا ہے ایک دوسرا آدمی آکر اُس سے یوں مخاطب ہو تا ہے )
ایک پرزہ کابلے کار ہوں میں بندہ بے روزگار سرکار
بیک نظر نہ سمجھیئے مجھے باالکل ہی بے کار سرکار
کھڑا کیجیئے اپنی کوٹھی کے پھاٹک پر اگر سرکار
دیکھو غضب کا چوکیدار ہوں ذمہ دار زوردار سرکار
اپنے بچوں کا اتالیق رکھو اگر مجھے سرکار
یعنی اس استاذ الاساتذہ صاحبِ علم و ذی وقار کو سرکار
گھر کی ساری چارپائیوں کی ڈھیلی پینتیاں کس لیتا ہوں میں سرکار
کہ تنی چارپائی کا اپنا ایک مزہ ہوتا ہے سرکار
گاڑی بھی چلا لیتاہوں اپنا شوفر رلھ لو مجھے سرکار
نئی گاڑی تمہاری چمکائے رکھوں نگینے کی طرح میں سرکار
مجھ سا ماہر باروچی نہ ملے آپ کو پوری دنیا میں کہیں سرکار
پکوان پکاؤں دیسی ولائتی دونوں یعنی سب ڈشیں ٹھنڈی وگرم سرکار
اب ذرا نظرِ کرم اس بچہ شُتر پہ ہو مہربانی سرکار
تو گردن معہ دونوں ٹانگوں کے اندر کوٹھی کے کر لوں سرکار
اس پہ بولا وہ مردمک بصدعاجزی و انکساری کے ساتھ
کہ بندہ آل ریڈی شوہر ہے اس گھر کا جناب ہر فن مولا سرکار