کلُور سے کراچی ۔۔ قسط 2
سفر نامہ
مبشر مہدی اشہر
اڑی کا ڈرائیور حتی المقدور اُونچے نیچے گڑھوں سے گاڑی کو بچانے کے لیے سٹیئرنگ کو اِدھر اُدھر گھُما رہا تھا لیکن بے سود ۔ اس کی یہ کیفیت آتش ؔ کے اس مصرع کی عکاس تھی کہ :
کھاؤں کِدھر کی چوٹ بچاؤں کِدھر کی چوٹ
اس کی یہ کوشش بے سُود نظر آرہی تھی۔ گاڑی کے ہچکولوں کے ساتھ ساتھ سواریاں اس علاقے کے سیاست دانوں،حکومت اور کچھ سڑک کے ٹھیکیداروں کو نان سٹاپ صلواتیں سُنائے جا رہی تھیں۔ پاکستانی ٹھیکیدار اس کوشش میں کہ ہر پانچ سالہ دور میں اسی سڑک کا ٹھیکہ لیا جائے، ایسا میٹریل استعمال کرتا ہے کہ سڑک کی پائیداری کو دو سال سےآگے بڑھنے نہیں دیتا۔
اتنے میں پچھلی سیٹوں سے ایک نومولود کے رونے کی آواز آئی شاید مسلسل ہچکولوں نے اس کی پُرسکون نیند میں خلل ڈال دیا تھا۔ رونے کی آواز بتدریج بلند ہوتی گئی۔ساری گاڑی کی سواریوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی اور ساتھ والی ایک سیٹ سے ایک خاتون نے کچھ قیمتی اور مفت مشورے سے بھی نوازا۔اُس کی ماں اُسے چُپ کرانےکی سعیِ مسلسل میں مصروف تھی۔ لیکن وہ چُپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ بالآخرگھر کے وزیر ِ اعظم کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس کے باپ کو چیف جسٹس کی طرح اس قضیے میں از خود نوٹس لیتے ہوئے مداخلت کرنا پڑی ۔ لیکن "ڈھاک کے وہی تین پات "اس نے بے وقت جگائے جانے پراحتجاج ختم کرنے سے صاف انکار کردیا ۔ فیڈر سے رشوت دے کر بہلانے کی کوشش بھی کی گئی۔ لیکن تھک ہار کرقادری صاحب اورخان صاحب کی طرح بچے کو خود بخود احتجاج ختم کرنا پڑا ۔
سفر سُست روی سے جاری تھا اور مصطفیٰ زیدی کےبقول :
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
گاڑی جیسے ہی فتح پور ضلع لیہ کے نزدیک ہموار سڑک پر پہنچی ڈرائیور نے ایکسلیٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھا دیا اور گاڑی فراٹے بھرنے لگی ۔گاڑی کی رفتار بڑھتی دیکھ کر سواریوں نے بھی سُکھ کا سانس لیا ۔میں نے سر پیچھے سیٹ کے ساتھ ٹِکا دیا اور نیم دراز ہوکر آنکھیں بند کر لیں۔ مسلسل ہچکولوں نے تھکاوٹ کا احساس پید اکردیا تھا پلکیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں۔ ایسی حالت میں گاڑی کے ٹیپ ریکارڈر پر غلام فرید صابری کی آواز میں مشہور ِ زمانہ قوالی
تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم ۔۔۔۔۔۔
نے تھپکیوں کا کام دیا اوررفتہ رفتہ نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ جب نیند سے بیدار ہوا، آنکھیں ملیں اور باہر دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ گاڑی کہاں پہنچی ہے۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ ہم مظفر گڑھ کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں ۔گویا میرے خواب ِ خرگوش کا دورانیہ گھنٹے سے زیادہ تھا ۔جہاں نیند سے بدن پر سُستی طاری ہوچکی تھی ۔وہیں ہلکی ہلکی بھوک کے باعث معدے نے بھی اپنا مطالبہ دہرایا۔اور میں نے اس سے ملتان پہنچنے تک کی مہلت مانگ لی ۔جو بادلِ نخواستہ منظور کر لی گئی۔گاڑی شاید راستے میں کہیں رُکی بھی ہو لیکن نیند میں ہونے کے باعث میں اس وقفہ سے استفادہ نہیں کرسکا تھا ۔
ہم رفتہ رفتہ ملتان سے قریب ہو رہے تھے ہماری ساتھ والی سیٹ پر سیاست پر بھرپُور بحث جاری تھی۔ ایک نوجوان کلین شیو جس نے جدید طرز کی کٹنگ کروا رکھی تھی ۔ بہت پُرجوش انداز میں بحث میں حصہ لے رہا تھا ۔ چھوٹی چھوٹی خشخشی داڑھی والا ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اور ایک ضعیف العمر سفید ریش بابا بھی حتی المقدور مباحثہ میں شریک تھے۔ طرفین سے اپنے اپنے حق میں دستیاب دلائل کے انبار لگائے جا رہے تھے۔ سیاست کی اس دوڑ میں فوج نجانے کہاں سے آٹپکی تھی کہ ایک فرد سیاست کے اس عمل میں ایک غیر سیاسی ادارے فوج کی مداخلت پر بھی شکوہ کُناں تھا ۔ایک آدمی کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دینے پر مُصِر تھا کہ ملک لُوٹنے والوں کا احتساب ہونا ضروری ہے۔ جب کہ دوسرا سیاست دانوں کی ذاتی کردار پر انگلیاں اُٹھاتے ہوئے اس چیز کو بھی باسٹھ تریسٹھ کے تحت لانے اور اس کا نوٹس لینے کی بات کر رہا تھا ۔ ایک آدمی نے بیٹھے بیٹھے غیر سیاسی اور نامعقول سا چُٹکلا چھوڑا "ارے بھائی جو اپنےگھر کو نہیں سنبھال سکتا وہ مُلک کیسے سنبھالے گا”۔
اس کی اس بات سے کچھ لوگ کھِلکھلا پڑے لیکن کچھ نے کہا کہ شاید اب تجربہ آچُکا ہو ۔ بات تبدیلی کی چل نکلی تو کے پی کے اور دوسرے صوبوں کا موازنہ ہونے لگا ۔۔
اور اس ساری گفتگو میں ہم نے ایک اچھے سامع کا کردار ادا کرتے ہوئے محض مُسکرا دینے پر اکتفا کیا ۔
مباحثہ کرنے والے دونوں افراد کو اتنی گرما گرم بحث میں میرا محض ایک خاموش تماشائی کا کردار بالکل ایک آنکھ نہ بھایا ۔جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس نے مُجھے بحث میں گھسِیٹنے کے لیے اپنے موقف کی ایک دلیل پیش کر کے میری طرف تائید طلب نظروں سے دیکھا اور کہا ایسا ہی ہے نا بھائی صاحب۔۔؟
میں نے اس کا اس کا دِل توڑنے کی بجائے اپنی خاموشی توڑنا زیادہ بہتر سمجھا اور اثبات میں سر ہلانے کے ساتھ کہا : جی بالکل ۔ اسی دوران میں فریقِ مخالف نے جب دوسرے کا پلڑا بھاری ہوتے دیکھا تو اپنی دلیل کے بعد اس نے بھی میری طرف متوجہ ہو کر تائید طلب کی تو میں نے جانب داری کے الزام سے بچنے کے لیے دانتوں کی ہلکی سی نمائش کرتے ہوئے کہ دیا جی۔۔! آپ کی بات میں بھی وزن ہے ۔
ان کی یہ لاحاصل بحث ہنوز جاری تھی کہ گاڑی کےکنڈکٹر نے وہاڑی چوک بس سٹاپ کی آواز بلند کی اور سب لوگ اپنا سامان سنبھالنے لگے۔ کچھ لوگ اُتر گئے اور باقی لاری اڈے پر اترنے کے لیے پر تولنے لگے ۔میں نے بھی اپنے اکلوتے مِنی بیگ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ لاری اڈے میں وارد ہوتے ہی ہر طرف سے مختلف قسم کے پاں پاں ،پُوں پوں، ٹی ٹی جیسے ہارنوں کا شور سنائی دیا ۔ جس کے ساتھ مختلف ہاکروں کی آوازیں مل کر عجیب سا ماحول بنا رہی تھیں ۔
کچھ گاڑیاں اپنی مسافت تمام کرنے کے بعد اڈے میں داخل ہو رہی تھیں اور کچھ اپنی منزل کی طرف اڑان بھرنے کو تیار کھڑی تھیں۔ہاکر اڈے میں آنے والی سواریوں کے آگے اپنی متعلقہ گاڑی کے سٹاپ کی آوازیں لگاتے ان کی منزل کے بارے میں پُوچھ رہے تھے۔ ایک سواری کو دو ہاکر پکڑے ہوئے دونوں اپنی اپنی گاڑی کی طرف کھینچ رہے تھے اور مسافر بے چارہ ان کے درمیان حیران و پریشان ہو رہا تھا ۔ مزے کی بات یہ تھی کی مسافر کا آدھا سامان ایک کے پاس تھا اور آدھا دوسرے کے پاس ۔ اب اس کے لیے جائے تو کدھر جائے والی بات ہو چکی تھی۔
ہم بھی اُترے، اپنا سامان سنبھالا اور رکشا ڈھونڈنے لگے کہ ریلوے اسٹیشن کی طرف چلا جائے ۔ دو تین رکشوں کے بعد ایک ادھیڑ عمر کا رکشے ڈرائیور ملا بات طے ہوئے اور ہم رکشے میں بیٹھ گئے ۔جاتے ہوئے چلتے چلتے دیکھا کہ ہر طرف انتخابی بینروں اور پوسٹروں کی بھرمار تھی ۔مہنگائی ، بے روزگاری اور دوسرے عوامی مسائل کی بجائے سیاست اور انتخابات ہی گفتگو کا محور تھے۔ ڈرائیور پی ٹی آئی کا حامی نکلا اور کہنے لگا کہ بھائی۔۔۔۔! کیا بتائیں نون لیگ نے کتنا لُوٹا ہے ؟ اور اب تو نواز شریف کو سزا بھی ہوگئی ہے ۔ لہذا نون لیگ کا دور ختم ۔ باقی رہی پی پی تو اس مرتبہ ان کا بھی ملتان شہر سے جیتنے کا کوئی خاص امکان نہیں ۔اور میں تو شاہ محمود کو ووٹ دوں گا ۔وہ اس طرح علاقائی سیاست پر ماہرانہ تبصرہ کر رہا تھا جس طرح سیاسی تھنک ٹینک کا رُکن ہو ۔
اسی دوران میں بات ہوئی ملتان کی سڑکوں کی کہ جہاں تھوڑے عرصے قبل ایک گاڑی دھنس گئی تھی۔ تو اس نے بتایا کہ وہ سورج میانی میں ہوا کیوں کہ ٹھیکیدار نے بے ایمانی کی تھی ۔باتوں ہی باتوں میں اسٹیشن کے قریب پہنچ گئے۔وہاں اُترے رکشے والے کو پیسے ادا کیے اور اسٹیشن کی طرف چل دئے ۔ سامنے عمارت پر ریلوے اسٹیشن لکھا نظر آرہاتھا۔
(جاری ہے)