"خوشبوکی شاعرہ”
تحریر >> دانش رحمان دانش
"آمدپہ تیری عطروچراغ وسبونہ ہو
اتنابھی بودوباش کوسادہ نہیں کیا”
بیسویں صدی کےتقریباًنصف میں آج کےروزایک ایسی ہستی کاجنم ہواجواردوادب کی دُنیامیں کِسی تعارف کی محتاج نہیں, یقیناًآغازمیں لکھےگئےشعرسےکوئی بھی اہل ذوق شخص اس بات کابخوبی اندازہ لگاسکتاہےکہ تحریرکاتعلق یقیناًہردلعزیزشاعرہ محترمہ "پروین شاکر”سےہےجن کے”جوشبو” "ماہ تمام” اور”انکار”جیسےنسخےخاص اہمیت کےحامل رہے, محترمہ اپنےمنفرداندازبیاں اورمنفردسوچ کی بناپرادب کی دنیامیں نمایاں رہیں اور
"”کیسےکہ دوں کہ مجھےچھوڑدیاہےاُس نے
بات توسچ ہےمگر,, بات ہےرُسوائی کی””
جیسےزبان زدِعام شعرکی دادبھی محترمہ کےحصےمیں آتی ہے… صدی میں کہیں ایک بارایسی سخن پرورہستی کاجنم ہوتاہےاوروہ تمام حلقہ احباب پر بلکہ ابتک ہرپڑھنےوالےشخص پراپنےالفاظ سےسحرطاری کرنےکافن رکھتی تھیں. میری یہ درینہ آرزورہی کہ میراجنم بھی محترمہ کےزمانہ میں ہوتاتوکم ازکم ملاقات کاشرف توحاصل ہوہی جاتا,
"”دل کی اک آرزوہی رہ گئی
کاش میں اورتم ہم ہوتے””
انتہائی حسین ہونےکےساتھ ساتھ غالباًکافی عاشق مزاج بھی بلاکی تھیں مگرچندغلط فہمیاں انکےشریکِ حیات (سیدنصیرعلی) سےعلیحدگی کاسبب بنیں جن سےانکاایک بیٹابھی تھا,, خیرپروین صاحبہ نےاسکےبعدکی تمام عمرانہیں کی بیوہ کی حیثیت سےگُزاری اورکچھ روایات کےمطابق یہ بھی کہاجاتاہےکہ گُزشتہ زندگی کوبُھلانےکےلئےانہوں نےمختلف منشیات کااستعمال بھی معمول بنالیااوریہ بھی کہاجاتاہےکہ دسمبر ۲٦ -١۹۹٤ میں جب محترمہ کوحادثہ پیش آیاتواس وقت بھی وہ نشہ کی حالت میں تھیں اوریہ حادثہ اُن کےلئیےموت کاسبب ٹہرا
"ہم توسمجھتےتھےایک زخم ہےبھرجائےگا
کیاخبرتھی؟؟؟ رگِ جاں میں اُترجائےگا”
("پروین شاکر”جیسی عظیم شاعرہ کےلئیےیہ تحریربہت ناکافی ہےلیکن انتہائ مصروف وقت میں سےاتناساوقت نکالنابھی بہت مشکل رہا,,,زندگی رہی تویقیناً انشااللہ ایک اعلیٰ درجےکی تحریرمحترمہ کی شان میں ضرورلکھوں گا)((دانش رحمان دانش))