پلک بسیرا
تحریر : عابد ایوب اعوان
کالم نگار و افسانہ نگار محترمہ میمونہ صدف کے افسانوں کے مجموئے پر مشتمل انکی پہلی کتاب "پلک بسیرا” کے نام سے تقریب رونمائی کے بعد منظر عام پر آچکی ہے۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی حرف اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام آرٹس کونسل راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔ کتاب کی تقریب رونمائی کی صدارت جناب افتخار عارف نے کی۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی کے موقعہ پر میمونہ صدف کی طرف سے مجھے پلک بسیرا پیش کی گئی جس کو وصول کرتے وقت میں نے اپنی ذات کو اس کتاب کو پڑھنے کا مقروض ٹھرایا۔ پلک بسیرا کا مطالعہ کرنے کے بعد اس پر کالم لکھ کر یہ قرض اتارنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کر رہا ہوں۔
افسانوں کے مجمووں پر مشتمل میمونہ صدف کی کتاب "پلک بسیرا” انکی پہلی کتاب ہے جس کے منظر عام پر آنے کے بعد اب میمونہ صدف کالم نگار کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار کے طور پر دنیا کے سامنے خود کو پیش کر چکی ہیں۔ میمونہ صدف کے قلم سے لکھے گئے پلک بسیرا کے افسانے انکی شناخت اور پہچان بن کر مستقبل میں میمونہ صدف کو صف اول کے افسانہ نگاروں کی فہرست میں لا کھڑا کرنے کی طرف پہلا قدم ہیں۔ میمونہ صدف نے اپنی کتاب کا عنوان پلک بسیرا تخلیق کر کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا پتہ دے دیا ہے۔ کتاب کے عنوان پلک بسیرا کو دیکھتے ہی قاری مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا معترف ہوئے بنا نہیں رہ سکتا اور کتاب کا مکمل مطالعہ کرنے کے بعد اپنے اندر ایک مثبت تبدیلی ، ہدایت اور اپنے لیئے درست سمت کا تعین کرلیتا ہے۔ مصنفہ نے جس انداز سے افسانے لکھے ہیں پڑھنے والا مکلمل یکسوئی کے ساتھ ان افسانوی کرداروں میں حقیقت اور سچائی کے رنگ تلاش کر کے خود کو اپنے سامنے خود احتسابی کے آئینے میں پیش کر دیتا ہے جہاں سے اسے ہدایت و راہ نمائی ملتی ہے کیونکہ مصنفہ نے افسانوں کو اس رنگ میں تحریر کیا ہے کہ جیسے ہی قاری کی دلچسپی بڑھ کر افسانے میں خود کو مکمل محو کر لیتی ہے تو وہیں پر مصنفہ اس انداز سے اسکی مذہبی ، اخلاقی و معاشرتی راہ نمائی کرتی ہیں کہ قاری ایک لمحے کے لیئے افسانے سے نکل کر اپنی ذات میں جھانک کر اپنے لیئے درست سمت کا تعین کرنے لگ جاتا ہے۔
افسانوں میں مصنفہ نے الفاظ بے زبان کو ورق پر اس طرح بکھیرا ہے کہ الفاظ موتیوں کی مانند ورق ورق پر بکھر کر جیسے بول رہے ہوں اور افسانوی مناظر جیسے آنکھوں کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہوں۔ افسانوی مناظر کو اس طرح الفاظ سے تیار کرنے کی مصنفہ کی صلاحیت قابل داد ہے۔
264 صفحات پر مشتمل کتاب پلک بسیرا میں کل 17 افسانے ہیں۔ ان 17 افسانوں میں کرن کرن روشنی ، اور وہ مر گئی ، پلک بسیرا ، اس شہر میں دل کو لگانا کیا ، پانچواں درخت ، اپریل فول ، پانی سے کوئی نہیں مرتا، وقت کا چکر ، قاتل ممتا ، وہ ہے ، تو پھر یہ غرور کیوں ؟ ، میں کہ جنس ارزاں ، دھند میں لپٹا سورج ، جندر، برف کے ٹکڑے، ہاتھوں کی لکیریں اور زندگی تیرے ساتھ ہے شامل ہیں۔
پلک بسیرا کے افسانے کرن کرن روشنی ، پلک بسیرا ، اپریل فول ، جندر اور زندگی تیرے ساتھ میں انسانی زندگی کے مختلف پہلووں اور انسانی زندگی میں شامل احساسات ، جذبات اور رویوں کو بہت دلچسپ انداز میں بیان کر کے مصنفہ نے قاری کو حقیقی زندگی میں پائے جانے والے ان رویوں ، احساسات اور جذبات کو سمجھ کر اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی اور درست سمت کا تعین کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔
پلک بسیرا کے تمام افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ مصنفہ میمونہ صدف زندگی کے تمام پہلووں احساسات و جذبات پر ایک گہری نظر رکھتے ہوئے وسیع مشاہدہ و وسیع النظر حامل خصوصیات پر مبنی گہرا مطالعہ رکھتی ہیں۔
مصنفہ اپنی کتاب کے اقبال جرم میں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ” میری تحریریں ان احساسات اور جذبات کے گرد گھومتی ہیں جن کو عموما اہمیت نہیں دی جاتی۔ میں نے ہمیشہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے احساسات لکھے ، ان کے بھی جو ذندہ تھے ، انکے بھی جو ہمارے بیچ نہیں۔ میں نے جب سے قلم اٹھایا تو ایک مقصد کے تحت اٹھایا تھا کہ میرا قلم داستانیں، حسن یار کے قصے، عورت کی خوبصورتی ، محبت کی داستانیں نہیں لکھے گا۔ میرے قلم کا محور بے وفائی اور وفا نہیں ہوگا۔ میرے قلم کا محور وہ رویے وہ احساسات ہیں جو بظاہر بے حد چھوٹے اور ناقابل غور ہیں لیکن یہ احساسات یہ رویے کسی کی زندگی کا حاصل اور کسی کی زندگی میں گھلا زہر ہے۔ میں یہ احساسات اور رویے صرف اس لیئے لکھنا چاہتی تھی کہ جو تو ان رویوں کو دیکھ چکے ان کے دکھ کا درماں تو شاید میں نہ کر سکوں لیکن دوسرے شاید ان رویوں سے بچ سکیں۔ میں نے اپنے قلم کو احساسات کی آگاہی کے لیئے اگر حرکت دی بھی تو بھی صرف اور صرف اس لیئے کہ جن کے ساتھ بیت چکی سو بیت چکی دوسروں کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ کامل انسانیت کو فروغ دیا جائے۔
میمونہ صدف کے لیئے دعا ہے کہ اللہ پاک انکے قلم کو مذید طاقت اور تاثیر عطا کرے کہ معاشرے کی راہ نمائی اور ہدایت کا سر چشمہ بن سکیں۔ آخر میں ایک شعر میمونہ صدف کے نام
عروج ایسا نصیب ہو تجھے زمانے میں
کہ آسمان بھی تیری رفعتوں پر ناز کرے