افسانہ

"کائنات کی پہچان” تحریر سعدیہ نور

کبھی کبھی لکھتے ہوئے آنکھ نم ہوجاتی ہے اور آنسو دل میں گرتے ہیں ۔ یہ آنسو جو باطن میں گرتے ہیں ایک آگہی رکھتے ہیں ۔ اس آگہی کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اپنے اندر انسان جب جھانکنا شروع کرتا ہے تو اس پر راز عیاں ہوتے ہیں ۔ ایسے راز جو اس کے باطن کو دھندلا کیے ہوتے ہیں ۔ اس کے گناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے گناہوں سے بھرپور باطن اور دنیا کا پرنور چہرہ مجھے کائنات کی پہچان کرا گیا ہے ۔ ایک کائنات انسان کے باطن میں ہوتی ہے اور ایک کائنات انسان کے باطن سے پرے ہوتی ہے ۔ اندر کی دنیا بھی تب بنتی ہے جب باہر کی دنیا کی آیتوں سے آیتیں ملاتے نشانیاں حاصل کرتے ہیں ۔

بچپن کی بات ہے جب تین چار سال کی تھی تو سوچا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ تین گناہوں سے پہلے معاف کر دیتا ہے ۔ابھی میں نے گناہ نہیں کیا ہے اور کبھی گنتی کہ ایک گناہ کیا ہے اور اس گناہ کی معافی مانگ کے سوچا کرتی کہ میرا تو اب کوئی گناہ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ایسی سوچ ۔۔۔ایسی امید—ایسی توقع میں نے مالک سے اب کیوں نہ رکھی ! دوستو ! ہم اللہ کو اتنے قریب سے بچپن میں دیکھتے ہیں اور جوانی میں بھُول جاتے ہیں ۔ جب کچھ ماہ گزرے تو سوچا کرتی کہ دو بہن بھائی جو میرے اسکول میں پڑھا کرتے تھے یہ اللہ کے قریب ہیں کیونکہ ان کے چہرے میں معصومیت ہیں جیسے کہ انہوں نے کوئی گناہ کبھی نہیں کیا ۔ تین سال اور گزرے تو قرانِ پاک ختم کرنے کے مراحل میں تھا ۔ تب میں سوچا کرتی تھی کہ اللہ میرے قران مجید پڑھانی والی ”بی بی” میں ہیں ۔ ان کے چہرے کا نور سوچنے پر مجبور کردیتا تھا کہ اللہ ان کے چہرے سے جھلکتا ہے اور پھر سوچتی کہ ان کی تو ساری زندگی قران پاک پڑھانے میں صرف ہوئی جو کہ ترجمہ ء تفسیر کے ساتھ قران پاک پڑھایا کرتی تھیں ۔ ان کا کھانا پینا ، ان کا چلنا اٹھنا ، بیٹھنا سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرانی آیات کے ورد اور سمجھانے میں گزر جاتا اور میں سوچا کرتی کہ اگر انہوں نے کوئی گناہ کیے بھی ہوں گے تو ان کے اچھے اعمال کی سبب دُھل گئے ہوں گے ۔۔۔ ہائے ! ایسے لوگ محبت والے ! جن کے چہروں پر نور جھلکتا ہے کیونکہ وہ خود میں نور کا خزینہ لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔

اپنے گناہ کا خیال تب آیا جب مجھے سورہ العصر سمجھ آئی ہے ۔ ایسی دل پر لگی کے سب پڑھنا چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔جو اس کا مفہوم سمجھ جائے وہ کبھی گناہ نہ کرے اور مجھ جیسے خطا کار سیہ کار۔۔۔۔۔۔۔۔جن کے اعمال نامے گناہوں کے پلڑے سے بھاری ہیں تو احساسِ زیاں ہوتا ہے کہ ہائے! ہائے ! میں اگر بچپن میں قران پاک کو ٹھیک سے سمجھتی تو جوانی میں احساس زیاں یوں نہ رُلاتا اور نا ہی میں کوئی گناہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سورہ میں تو محبت کا ذکر ہے لوگ اس کو سزا سے تعبیر کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس ! صد افسوس ! میں ناکامی میں ہوں کہ میں نے لوگوں سے محبت نہیں کی اگر کی ہوتی تو ان کی فکر ہوتی ۔۔۔۔۔۔ میرا عمل —صرف میری تقدیر نہیں بنائے گا بلکہ میرے اردگرد لوگوں کی آدھی تقدیر کو پلٹ دے گا ۔اگر میں اپنے اچھے عمل سے ، قربانی ایثار سے اور صبر سے دوسروں کے بھلے کا سوچوں ! مگر میں سوچوں تو ۔۔۔۔۔-مجھے اپنی فکر رہی کہ میں نے اپنا اچھا کرنا ہے اس سبب میں نے دوسروں کے لیے گڑھا کھود دیا یا میری مثال ایسی ہے جس میں میرے اپنے میرے پاؤں کی زنجیر ہیں جیسے ایک ماں کے لیے اس کی اولاد پاؤں کی بیٹری بن جاتی ہے اور وہ اس کی خاطر قربانی در قربانی دیے چلی جاتی کہ اگر وہ نہیں ہوگی تو اس کے بچوں کا کیا ہوگا ۔۔۔۔۔۔اس کے بچے تو رل جائیں گے ۔میں نے ایسا نہیں سوچا کہ میں اپنے بہن بھائی ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی زنجیر رکھتی ہوں ۔۔

ایک تو میں نے کبھی اپنوں کے لیے قربانی کا سوچا نہیں اور سوچا تو احسان جتایا ۔۔۔چلیے اس کو چھوڑیے ! میں تو خود بھی سوئی رہی ہوں جیسے ایک بندہ بیزار ہوتے بستر سے نہیں نکلتا کہ اجالا اس کے لیے آگہی ہے اور یہ اذیت ہے ۔۔۔مجھے آگہی ملتی رہی اور میں اس پر آنکھیں بند کیے سوئی رہی ۔۔۔۔۔۔گھر میں کبھی حادثہ ہوا ۔۔۔۔۔میری عدم جذباتیت —-کوئی شادی ہو——–عدم جذباتیت —-یہ نہیں کہ جذبات نہیں تھے مگر اندر کی دنیا بھری پڑی تھی جذبوں سے اور باہر کے لوگوں کے لیے ایک پتھر تھی ۔۔سب کہتے تھے میں بہت بے حس ہوں اور اندر اندر کڑھتی رہتی تھی کہ میرے اپنے مجھے بے حس کہتے جبکہ ان کے لیے رات کی تنہائی میں آنسو بہاتی ہوں یا آنسو دل پر گرتے ہیں ۔۔۔روح محسوس کرے اور عمل نہ کرے تو بندے کیا کرے ۔۔دل تو کرتا ہوں بہت ملامت کروں خود کو —–مگر کیا ہے کہ میں نے اگر خود کو ملعون کہا تو میرے خالق کو برا لگے گا کہ اس نے مجھے بنایا ہے ۔

اسی سوچ پر میرے اندر آنسو گر رہے ہیں کہ اگر میں سوئی نہ ہوتی تو میں بہت کچھ اچھا کرسکتی تھی یا اچھے کو اور اچھا کرسکتی تھی مگر میں تو سوئی رہی اور اس خواب کی حالت میں سمندر کی گہری لہریں مجھے خود میں سمونے لگیں ۔

Back to top button