افسانہ

ودیا علی خان کا افسانہ ” دہشت گردی "

مو ضوع دہشت گردی
تحریر ودیا علی خان
کیا جرم کیا ہے اپ نے بیٹا جس کی سزا کاٹ رہے ہو حالانکہ میں نے تو اپکو بہت اچها اور رحم دل پایا ہے؟” جیل میں میرے ساتهہ اس ادهیڑ عمر کے شحص نے جواب دیا تو دو سال پہلے کی ساری تلخ یادیں میرے ذہن میں تازہ ہو گئ
"میں نے انسانیت کا خون کرنے کی کوشش کی تهی” میں نے اس ادهیڑ عمر شخص کو جواب دیا
دو سال پہلے ہر روز کی طرخ اج شام بهی میں کرکٹ کهیلنے گیا تها اور ہر روز کی طرح وہ داڑهی والا مولوی میری طرف دیکهہ رہا تها جب میری نظر ان پر پڑی تو وہ میری طرف آگیا اور بہت پیار سےکہا
” بیٹا میں چاہتا ہوں کہ آپ صحیح طرح سے مسلمان ہو جاؤ ، اللله کے رستے پر چلو، اللله کے احکام کی پیروی کرو، میں اپکو غلط رستے پر نہیں دیکهہ سکتا” وه مولوی یہ کہہ کر مجهے سوچهتا ہوا چهوڑ کر چلا گیا
پهر کیا ہوا… وہ مولوی دوبارہ آیا ” اس ادهیڑ عمر قیدی نے پوچها
وه اگلے دو دن تک نہیں ایا تیسرے روز وہ کرکٹ سٹیڈیم میں پہلے سے موجود تهے مجهے آتا دیکهہ کر وه میری طرف بڑهے اور ہم دونوں اک کونے میں بیٹهہ گئے
اس کی باتیں مجهے بہت پر اثر معلوم ہوتی تهی اور میں ہر روز انکے مدرسے جانے لگا
میری ساتهہ اس مدرسے میں اور بهی کافی لڑکے تهے وہ ہمیں جہاد کی ترغیب دیتے وه ہمیں کہتے کہ اگر ہم جہاد کرینگے شہید ہو جائنگے ته ہمیں جنت ملے گی وه روزانہ ہمیں مختلف دلیلوں سے قائل کر کے ہمارے اندر دہشت گردی کا جزبہ جگاتے اور جب پوچهتے کہ اج کون شہادت کے رتبے پہ فائز ہونے جائگا تو ہم سب ساتهی بہت خوشی سے آگے آگے ہوتے
عید کا دن تها اور اج شہید ہونے کے لئے میرا انتخاب ہوا تها میں نے بہی سب کی طرح خوشی خوشی جیکٹ پہنا ، سب کی مبارک باد وصول کی، نماز قائم کی اور اپنے منزل مقصود کی طرف نکل پڑا…
میں ابنے منزل کی طرف جا رہا تها کہ میرے دل میں اخری بار مولوی صاحب سے ملنے کا خیال ایا تو میں انکے گهر انسے ملنے چلا گیا
میں اندر جانے ہی والا تها کہ میرے نظر کهلے دروازے کے پیچهے مولوی صاحب کو دیکها
وہ مولوی صاحب مسلمان ہی نہیں تهے وہ پتهر کی مورتی یعنی بت کی پوجا کر رهے تهے
تب مجهے احساس ہوا کہ میں غلط رستے پر ہوں ، میں اللله کی راہ میں وہ گناہ کرنے جا رہا تها جس کی اجازت اسلام کبهی نہیں دیتا ، اتنے لوگوں کا قتل کر کے میں جنت کی تلاش میں تها، میں یہ بهول گیا تها کہ اللله تعالی نے فرمایا :-
جس نے اک بهی بے گناہ انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ”
میں گویا پوری انسانیت کو اپنی دہشت گردی کی نظر کرنے والا تها
اسی وقت میں نے توبہ کی،خود کو پولیس کے حوالے کیا اور یہاں اپنے کئے کی سزا کاٹ رہا ہوں
میں نے اپنی بات ختم کی اور میرا چہرا آنسؤؤں سے تر تها میرے چہرے پہ پچهتاوے کے رنگ تهے اور وہ ادهیڑ عمر شخص نے خاموشی سے اٹهہ کر مجهے پانی پلا

Back to top button