افسانہ

صائمہ شعیب کا افسانہ

افسانہ
عنوان : دہشت گردی……………..از قلم : صائمہ شعیب
بکھرے بال بڑھی ہوئی ڈارھی مونچھ بے ترتیب حلیہ بلکہ پاگلوں والی حالت ۔میں جہاں سے بھی گزرتا لوگ مجھے پاگل کہتے۔ شریر بچے پتھر مارتے اور پاگل پاگل کہتے پیچھے بھاگتے مجھے ان کا پتھر مارنا یا پاگل کہنا بُرا نہیں لگتا تھا میں تو خود چاہتا تھا مجھے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے بلکہ عبرت کا نشان بنانا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی میرا بھی خوشحال گھرانہ ہوتا تھا ۔ میں زبیر، باپ کا نام پتا نہیں، یتیم ہوں یا ناجائز نہیں جانتا۔ یتیم خانے میں پلا بڑھا سولہ سال کی عمر میں وہاں کی سختیوں سے تنگ آکر بھاگ گیا۔ کچھ دن سڑکوں پر اِدھر اُدھر مارے مارے پھرنے کے بعد ایک دن دہشت گردوں کے گروہ کے ہتھے چڑھ گیا ۔ پیسے کے لالچ میں اور اچھی تربیت نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں دہشت گردوں کا آلہ کار بن گیا ۔ شروع میں ضمیر نے ملامت کیا پر پیسے کی ریل پیل نے ضمیر کو بھی آخر کار سلا دیا۔ میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا اور باس کا خاص آدمی بن گیا۔ میں جس محلہ میں رہتا تھا وہاں میری شہرت بہت اچھی تھی ۔ محلے والے بہت عزت کرتے تھے۔ میں ہر اچھا کام کرتا تھا پر اللہ کی ذات کو بھولا بیٹھا تھا۔ لوگ نہیں جانتے تھے میں کیا کام کرتا تھا اس لیے عزت بنی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے محلہ کی مسجد کے امام صاحب کی بیٹی سے پیار ہو گیا ۔محلے میں میری اچھی شہرت کی وجہ سے میری شادی زینب کے ساتھ ہو گئی۔ ایک سال بعد اللہ نے ہمیں بیٹے سے بھی نواز دیا زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی پر ایک دن وہ ہو گیا جس کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ اُس دن پتہ نہیں کیسے مجھ سے بے احتیاطی ہو گئی اور زینب نے میری باتیں سن لی جب باس مجھ سے ملنے گھر آیا ہوا تھا ۔ باس کے جاتے ہی زینب نے مجھ سے جھگڑا کیا مجھے بھلا برُا کہا اور پھر میری منت سماجت کی اللہ کے عذاب سے ڈرایا پر میں ماننے والا نہ تھا نہ مانا ۔ آخر کار وہ روتے ہوئے میرے بیٹے کو لے کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی۔ میں اس کو منانے کا سوچتے ہوئے اپنے اگلےلائحہ عمل پر مصروف ہو گیا۔ اس دفہ کا دھماکہ ہم نے نگینہ بازار میں کرنا تھا جو میرے محلہ کے قریب تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس دن پیر تھا میں صبح ہی نگینہ بازار میں لوگوں کی نظروں سے بچا کر سنسان جگہ پر بم رکھ آیا تھا ۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے میں گھر آگیا کہ شام کو زینب کو منا کر گھر لے آؤں گا میں نے اُس کی بات مانتے ہوئے یہ کام چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا اور یہ آج آخری دفہ تھا ۔ گھر آکر میں سو گیا شام کو آٹھا اور تیار ہو کر امام صاحب کے گھر جانے کے لیے گھر سے نکل آیا محلہ میں ہر طرف آج کے دھماکہ کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ امام صاحب کے گھر کے قریب پہنچا تو وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھا گھبرا کر اندر گیا تو دیکھا صحن میں زینب اور میرے بیٹے کی میت پڑی ہوئی تھی ۔ مجھ پڑ نظر پڑتے ہی امام صاحب میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ یہ دونوں بازار گئے ہوئے تھے گھر کا کچھ سامان لینے اور وہاں بم دھماکے کا شکار ہو گئے وہ اور بھی کچھ کہہ رہے تھے پر مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا سوائے زینب کے آخری الفاظ کے جو اُس نے گھر چھوڑ کر جانے سے پہلے مجھے بولے تھے” جس طرح آپ بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں اگر کبھی ہم بھی آپ کے دھماکہ کی زرد میں آگئے تب کیا کریں گے آپ ” پر میں فرعون بنا اُس کی بات ماننے سے انکاری تھا میں بھول گیا تھا جو جیسا کرتا ہے ویسا پھل بھی پاتا ہے میں بھول گیا تھا اللہ جب رسی دراز کرتا ہے تو کبھی بھی کھینچ لیتا ہے اور میری رسی کھینچ لی گئی تھی۔۔۔۔۔
از قلم : صائمہ شعیب

Back to top button