ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف ادیب احسان بلوچ کا افسانہ "آبِ مرگ "
آب مرگ
تحریر۔ احسان بلوچ۔( ڈیرہ اسماعیل خان۔)
سولہن نے سپرے کین کمر سے اتار کر درخت کے نیچے رکھا اور منہ پر لپٹے کپڑے کی گانٹھ کھول دی ۔ ماتھے پر آتے پسینے کو اس نے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اکٹھا کرکے زمین پر یوں جھٹکا جیسے کسی نادیدہ قوت کو ڈرایا ہو۔ اس کے کپڑے اورہاتھ پاؤں گردو غبار سے اٹ چکے تھے۔ درخت کی ٹیک لگا کر وہ سستانے بیٹھا تو اسے پیاس کی شدت کا احساس ہوا۔ اس نے تھوک نگلتے ہوئے حلق کو تر کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن حلق میں چبھتے کانٹے پھر بھی اپنا اثر دکھاتے رہے۔ وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا پر اسے اپنا بوڑھا باپ کہیں نظر نہ آیا۔خشک پہاڑوں کے سائے میں پھیلا وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں کی پیاسی زمین بانجھ عورت کی کوکھ کی طرح ویران تھی۔اسی ویرانے میں ملک صوبیدار کا چند کنال کا رقبہ ہی تھا جسے یہ دونوں باپ بیٹا مدتوں سے آباد کئے ہوئے تھے۔یہ ملک صوبیدار کی خوش قسمتی تھی کہ اس کی زمین کو گاہے بگاہے بارش کا پانی نصیب ہو جاتا وگر نہ گاؤں سے لیکر پہاڑ کی آغوش تک سارا علاقہ غیر آباد اور بنجرتھا۔ گاؤں میں غروب آفتاب کا وقت ہو چلا تھا۔ روشنی اور حرارت کا دیوتا مغرب کی گود میں سونے کو بے قراردکھائی دیتا تھا۔ پہاڑ کی اوٹ میں چھپتے سورج سے یوں گماں ہو رہا تھا جیسے چوٹی پر کسی نے آگ جلا رکھی ہو۔ فضاء میں تیرتے پنچھی جلدی جلدی اپنے گھونسلوں کو لوٹ رہے تھے۔اس نے بیٹھے بیٹھے آنکھوں پر سیدھے ہاتھ کی چھتری بنائی اورمغرب کی سمت افق پر کچھ تلاش کرنے لگا۔ ڈوبتے سورج کے بالکل اوپر بادل کا ایک ٹکرا آفتابی رنگ میں رنگا نظر آ رہا تھا۔ وہ مسلسل دیدے گھماتا رہا۔ لیکن پھر مایوس ہو کر ہاتھ نیچے گرا دیا۔ شام کی ساری اداسی اسکی آنکھوں میں اترنے لگی ۔ اچانک اس نے ہاتھ دعا کیلئے بلند کر دیئے۔
’’ یا پرورگار ۔ تُو ہم غریبوں پر اپنا کرم کر۔ ہمارے گناہوں کو اس سزا کی وجہ نہ بنا۔ ہم پر رحم کر۔ اپنی رحمت برسا۔ ‘‘ وہ باقاعدہ گڑگڑانے لگا۔ دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھیں دھندلا گئیں۔
’’سولہن ۔ او ۔سولہنڑے۔ ۔ چل پُتر۔ شام ہو چلی ہے۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے گھر پہنچ جائیں۔ ‘‘ دور سے اسکے بوڑھے نحیف باپ کی پکار سنائی دی۔
اس نے جلدی جلدی ہاتھ چہرے پر پھیرے اور ایک اچٹتی نگاہ آسمان پر ڈالی۔ ٹھنڈی سانس لیکر اس نے اپنے صافے سے آنکھیں خشک کیں اور باپ کو جواب دیا۔
’’ آتا ہوں بابا ۔ ٹھہر جا۔باپ کو جواب دیکر اس نے دونوں ہاتھوں سے درخت کے نیچے پڑا سپرے کین اور دیگر سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ 35سالہ سولہن کے کچھ بال سفید ہو چکے تھے۔ کپڑوں کی اڑی اڑی رنگت اور پاؤں میں مٹی سے اٹی جوتی اس کی غربت کو عیاں کر رہی تھی۔ سامان سمیٹ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتاہوا تالاب کی طرف جانے لگا۔ درختوں کے جھنڈ سے قدرے پرے گاؤں کے ہر ذی روح کی ضروریات پوری کرتا پانی کایہ تالاب تقریباً خالی ہو چکا تھا۔خشک ہوئی زمین جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی حساب دان نے زمین کو چوکور خانوں میں تقسیم کر رکھا ہو۔ تالاب کے اندر پانی کے اطراف میں کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔سولہن کیچڑ میں بے فکری سے پاؤں رکھتا اس حصہ کی جانب آ گیا جہاں تھوڑا سا پانی ابھی موجود تھا۔ اس کا ارادہ پانی پینے اور منہ ہاتھ دھونے کا تھا۔ کنارے بیٹھ کر اس نے دونوں ہاتھوں کے کٹورے میں پانی بھرا اور منہ تک لایا ہی تھا کہ پانی کے دوسرے سرے پر اسے ایک کتا پانی پیتا دکھائی دیا۔ اس نے ہاتھوں میں موجود پانی جلدی جلدی حلق میں ڈالا اور پاس پڑے مٹی کے ایک ڈھیلے کو اٹھا کر کتے کو مارنے ہی لگا تھا کہ اچانک رک گیا۔کتا اس دوران بے فکر ی سے پانی پیتا رہا۔ سولہن چند لمحے سوچتا رہا اور پھر کتے کو پانی پیتا چھوڑ کر خود بھی اپنی پیاس بجھانے لگا۔ پانی کا ذائقہ کچھ بدلا بدلا سا تھا ۔ وہ چند گھونٹ ہی بھر سکا۔ پیچھے سے ایک بار پھر اس کے باپ کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر باپ کی طرف دیکھا اور پھر منہ ہاتھ دھونے کی عیاشی کا خیال چھوڑ کر باپ کی جانب چل دیا۔ اس کا بوڑھا باپ کریمو گاؤں جانے والے راستے پر بیٹھا ہانپ رہا تھا۔ پاس ہی لکڑیوں کا گٹھا پڑا تھا۔
’’ چلو بابا۔ آج واقعی دیر ہو گئی ہے۔ کائنات گھر میں انتظار کر رہی ہو گی۔ خدا جانے اسے درد سے چھٹکارا ملا بھی ہوگا یا نہیں‘ اس نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
’’ ہاں پتر۔ صبح دم نکلتے وقت تو اسے ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا تھا۔ رب کرے اب درد ختم ہو چکا ہو۔۔یہ لکڑیاں بھی اٹھا لے۔ مجھ کمزور جاں سے تو اتنی ہی لکڑیا ں چنی گئی ۔ ‘‘ ۔75سالہ کریمو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہوئے بولا۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر باپ کو سہارا دیا۔ کچھ ہی فاصلے پر ان کی بیل گاڑی ٹھہری تھی۔ اس نے جلدی جلدی لکڑیاں اور دیگر سامان بیل گاڑی میں لادا۔ باپ کو سہارا دے کر اس پر سوار کیا اور خود آگے کی جانب آکے بیٹھ گیا۔ بیل گاڑی چلتے ہی اس کی زبان بھی چل پڑی۔
’’ بابا۔ اگر بارش نہ ہو ئی تو‘‘۔ اس کے لہجے میں ہزار ہا اندیشے پنہاں تھے۔
’’ اللہ بہتری کریگا پُتر۔رب سوہناکبھی اپنے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا۔بارش ضرور آئیگی۔ دیکھ لینا۔ ۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ ایک دو روز میں بارش ضرور ہوگی‘‘۔بوڑھے کریمو نے موٹے عدسوں والی عینک کے پیچھے سے آسمان پر نگاہ ڈالی ۔۔۔’’ اور تُوکائنات کوپیر چن شاہ سے دم کیوں نہیں کرواتا۔کب سے تجھے کہہ رہا ہوں۔ ‘‘اس نے پیچھے مڑ کر باپ کو ایک نظر دیکھا اور گویا ہوا۔
بابا۔ ڈسپنسری والاڈاکٹر بولتا ہے اسے گردوں کا مرض ہے ۔ جتنا زیادہ پانی پیئے گی اتنا کم درد ہوگا۔تُو جانتا تو ہے۔ جب سے ٹیوب ویل کا پانی ختم ہوا ہے کائنات کوپھر سے تکلیف شروع ہو گئی ہے۔ ‘‘اس کے لہجے میں بیٹی کی تکلیف کا درد چھپا تھا۔
’’ خدا بھلی کریگا ۔ رب سوہنے نے بارش دے دی تویہ تالاب دوبارہ بھر جائیگا ۔ پھر پانی کی کمی نہیں ہوگی۔ کائنات پُترپھر جتنا چاہے پانی پیئے۔ ‘‘ بوڑھے دادا کے لہجے میں پوتی کیلئے ڈھیروں محبت تھی۔ سولہن لمبی ہوں کرکے رہ گیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ گاؤں میں داخل ہوئے۔ چند سو نفوس پر مشتمل اس گاؤں کی زیادہ تر آبادی پانی کی قلت کی وجہ سے قریبی دیہات یا شہر اپنے رشتے داروں کے ہاں کوچ کر گئی تھی۔ صرف ملک صوبیدار کا گھرانہ اوردرجن بھر خاندان اپنی کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے ابھی تک گاؤں میں تھے۔ کریمو پرانے وقتوں سے ملک صوبیدار کا مزارعہ تھااس لئے ملک نے اسے بھی روک لیا۔ وہ دونوں باپ بیٹا ملک کی زمینوں میں کھیتی باڑی کرکے ہی اپنا گزر بسر کر رہے تھے۔
******
گھر میں داخل ہوتے ہی سولہن نے باپ کو سہارا دیکر نیچے اتارا اور پھرباقی سامان نیچے پھینکنے لگا۔ بیل کو گاڑی سے الگ کرکے پھاٹک کے ساتھ بنے چھپر کے نیچے کھونٹی سے باندھا اوراپنے صافے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے صحن میں بچھی چارپائیوں کی طرف آ گیا۔ اسکی بیوی رہائشی کمرے کے پہلو میں بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں بیٹھی توے پر روٹیاں ڈال رہی تھی۔ پاس ہی اسکی دس سالہ کائنات سر منہ دوپٹے میں لپیٹے ماں کے بازو سے لگی بیٹھی تھی۔ سولہن کو اپنی کائنات سے بہت پیار تھا۔ اس نے بیٹی کو آواز دی۔
’’ کائنات پُتر ۔ ادھر آ ۔ دیکھ میں تیرے لیے کیا لایا ہوں۔‘‘ اس نے دائیں طرف کی جیب سے گڑ کی ڈلی نکال کر لہراتے ہوئے کہا۔ کائنات کی آنکھوں میں واضح چمک ابھری۔ وہ جلدی سے اٹھی اور باپ کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی۔ ’’ابا۔ آج دوپہر کو مجھے پیٹ میں اتنا درد ہو رہا تھا اور بہت زیادہ پیاس بھی لگ رہی تھی۔ میں نے اماں سے بار بار پانی مانگا۔ مگر اماں نے صرف ایک بارہی پانی دیا مجھے‘‘۔ وہ منہ بسور تے ہوئے ٹیپ ریکارڈر کی طرح بولنے لگی۔ بابا ڈاکٹر نے تو کہا تھا نا کہ میں زیادہ پانی پیا کروں۔ پھر اماں مجھے زیادہ پانی کیوں نہیں پینے دیتیں‘‘۔ اس نے شکایتی انداز میں سوال کیا۔ چارپائی پر ٹانگیں جھلاتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ گڑ بھی کھا رہی تھی۔ اس نے بے اختیار بیٹی کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے بھنوئیں اچکا کر خاموش سوال کیا۔
’’ گھر میں پڑے پانی کے تینوں ڈرم خالی ہو چکے ہیں۔ دوپہر میں بھی ملکانی سے تھوڑا پانی لے آئی تھی جس میں سے آدھا اس نے پیا اور آدھا سالن میں ڈالا ہے۔ اب پیٹ کی آگ بھی تو بجھانی ہے نا‘‘ اس کی بیوی صفائیاں پیش کرنے لگی۔ وہ کچھ دیر وہیں بیٹھ کر سوچتا رہا کہ کس طر ح پانی کا بندوبست کرے۔ گاؤں میں جو گھرانے بچ گئے تھے ان سب کی ایک جیسی ہی حالت تھی۔ ایک ملک صوبیدار کا گھر تھا جہاں سے اس کی بیوی دوپہر میں پانی لے آ ئی تھی۔ اس کے ذہن میں بار بار تالاب کا منظر آ رہا تھا۔ جہاں اتنا پانی موجود تھا کہ ان کے کچھ دن نکل جاتے۔ وہ کچھ دیر تذبذب کا شکار بیٹھا رہا۔ پھر اٹھا اور گھڑونچی کے پاس جا کے مٹکا اٹھایا اور اسے گھر کی بیرونی دیوار سے ٹکے سائیکل پر رکھ دیا۔ پرانی سائیکل اپنی مدت پوری کر چکی تھی۔ لیکن سولہن ابھی بھی اسے کبھی کبھار پانی ڈھونے کیلئے استعمال کرتا تھا۔ اس نے سائیکل گلی میں نکالی اور تالاب کا رخ کیا۔ اس کی واپسی آدھے گھنٹے میں ہوئی۔ پانی سے بھرے مٹکے کو اس نے گھڑونچی پر رکھا اور پیتل کے گلاس میں پانی انڈیل کرکائنات کو آوازیں دینے لگا۔
’’ کائنات پتر۔۔ لے پانی پی لے۔۔ پھر کھا نا کھا کے سو جانا میری دھی۔خدا نے چاہا تو تمہارا درد جاتا رہے گا۔‘‘ پتہ نہیں اس نے خود کو تسلی دی تھی یا بیٹی کو۔
کھانا کھاکہ وہ کچھ دیر بیٹی سے باتیں کرتا رہا اور جب اسے لگا کہ کائنات سو گئی ہے تو وہ خود بھی اپنی چارپائی پر آ کے لیٹ گیا۔ آسمان کو گھورتے ہوئے ستاروں کے بیچ وہ ان چند روزہ خوشیوں کو تلاش کرنے لگا جب اس گاؤں میں ٹیوب ویل لگاتھا۔ ملک صوبیدار کا بیٹا کسی عرب ملک میں ایک شیخ کا ملاز م تھا۔ شیخ اکثر ملک صوبیدار کے بیٹے سے گاؤں کے حالات سنتا اور کبھی کبھار اسکی مدد بھی کر دیتا تھا۔ پچھلی بار جب ملک صوبیدار کے بیٹے نے اس کے سامنے پانی کا مسئلہ رکھا تواس نے گاؤں والوں کو صاف پانی فراہم کرنے وعدہ کر لیا۔وہ منگل کا دن تھا جب گاؤں میں صاف پانی کا ٹیوب ویل لگا۔ یوں سمجھو اس دن گاؤں میں عید تھی۔ میدے میراثی نے ڈھول بجا بجا کر سارے گاؤں والوں کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ گاؤں کی خواتین ملکانی کو گھیرے بیٹھے تھیں اور اسکے بیٹے کے صدقے واری جا رہی تھیں۔ بچے تو پھر بچے تھے۔۔ ٹیوب ویل سے اتنا زیادہ ٹھنڈا اور صاف پانی نکلتا دیکھ کر مچل اٹھے اور پانی میں نہانے لگے۔ ملک صوبیدارکی چوپال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ خود ملک کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ اس دن واقعی عید تھی۔ ملک صوبیدار نے پوری تین دیگیں زردے کی بانٹی تھیں۔گاؤں کا ہر نفس خوشی سے جھوم رہا تھا۔اس نے ٹھنڈی سانس لیکر کروٹ بدلی۔۔ اچھا وقت مٹھی میں بند ریت کی مانند ہوتا ہے۔ کتنی جلدی ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ وہ سوچنے لگا ۔ ٹیوب ویل کا پانی چند ماہ ہی چل سکا پھر زیر زمین پانی کم ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہو گیا۔ گاؤں والوں نے بہت کوشش کی پانی دوبارہ چالو ہو جائے لیکن ان کا جاگتا نصیب بھی ٹیوب ویل کے پانی کی طرح کہیں نیچے گہرائیوں میں سوگیاتھا۔
******
رات کاآخری پہر تھا جب اسکی بیوی سرہانے آ کر ہراساں لہجے میں اسے پکارنے لگی۔ سنتے ہیں۔۔ میں کہتی ہوں اٹھیئے۔۔۔ دیکھئے تو۔۔ کائنات کو بہت شدید درد ہو رہا ہے۔ وہ گھبرا کے اٹھ بیٹھا۔ آسمان پر بجلی چمک رہی تھی۔ تیز ہوا میں شامل خنکی بارش ہونے کی نوید سنا رہی تھی۔ دور مسجد سے مولوی صاحب ’’ نماز نیند سے بہتر ہے ‘‘ کی صدا بلند کر رہے تھے۔ کائنات ماں کی چارپائی پر لیٹی درد سے کراہ رہی تھی۔ وہ ننگے پاؤں اس کے قریب آ گیا۔ ابا۔ پانی۔۔۔ ابا مجھے پانی پینا ہے۔ ۔ وہ بار بار پانی مانگنے لگی۔ ۔ ماں نے آگے بڑھ کو کائنات کو گود میں بھر لیا۔ ۔ وہ ماں کی گود میں جھول گئی۔۔۔ پانی۔۔پانی۔۔ ابا میرے پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے۔۔ آنسو متواتر کائنات کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ ۔۔ وہ کبھی پانی مانگتی تو کبھی درد سے کراہنے لگتی۔۔ بوڑھا کریمو جاگ چکا تھا۔۔ اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر اس پر پھونک رہا تھا۔ ۔۔ سولہن اس دوران مٹکے سے پانی بھر لایا۔ اس نے ماں کی گود میں پڑی کائنات کے سر کو سہارا دیکر اوپر کیا اور گلاس اس کے لبوں سے لگالیا۔۔۔ بارش کے موٹے موٹے قطرے کنکریوں کی طرح برسنے لگے۔
’’ لے پتر۔۔۔ پانی پی۔۔۔ پانی پی میری دھی۔۔‘‘ وہ گھبراہٹ کا شکارہو چکا تھا۔ کائنات نے دو گھونٹ پانی بمشکل پیا کہ اسے الٹی آنے لگی اور پھر اسکا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔۔ اسکی ماں نے روتے ہوئے کائنات کو جھنجھوڑا ۔۔ لیکن کائنات بے ہوش ہو چکی تھی۔۔ سولہن حالات کی نزاکت سمجھ چکا تھا اس لئے ننگے پاؤں ہی دروازے کی جانب دوڑا۔کچھ ہی دیر میں وہ ملک صوبیدار کی جیپ میں اس کے ڈرائیور کے ساتھ بڑے ہسپتال جا رہے تھے۔ پچھلی سیٹ پر اس کی بیوی کائنات کو گود میں لٹائے مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔ کائنات ماں کی گود میں بے حس و حرکت پڑی تھی۔۔ اس کی ماں اسے بار بار جھنجوڑ کر پکارتی۔۔ کائنات۔۔۔ آنکھیں کھول میری دھی۔۔ آنکھیں کھول۔۔۔ اور پھر دوپٹے کا پلو منہ میں لیکراپنی چیخیں دبانے کی کوشش کرتی۔ بارش موسلا دھار برسنے کے بعد اب تھم چکی تھی۔ دور آسمان کی گہرائیوں میں کہیں کہیں ابھی بھی بجلی چمک رہی تھی۔ تالاب کی جانب جانے والے راستے پر کچھ جوان مرد اور لڑکے پانی کے برتن اٹھائے اونچی آواز میں بولتے ہوئے جا رہے تھے۔ ان کی چیخ و پکار میں کبھی کبھی بادلوں کی گرج بھی شامل ہو جاتی۔ اندیشوں اور وسوسوں میں گھرا وہ بار بار پچھلی سیٹ کی جانب مڑ کے دیکھتا۔ شہر پہنچتے پہنچتے انہیں دو گھنٹے لگ گئے۔ وہ کیسے جیپ سے اترے۔۔ کائنات کیسے ایمرجنسی روم میں گئی۔۔ انہیں کچھ خبر نہیں تھی۔۔انہیں تو بس اپنی کائنات کی فکر نے ہر سوچ سے آزاد کر رکھا تھا۔۔اور اب بڑے ہسپتال پہنچے ہوئے انہیں آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا۔ ملک صوبیدار کا ڈرائیوراس دوران مسلسل سولہن کو دلاسا دیتارہا۔وہ برآمدے میں رکھے بنچ پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدلنے لگا۔ اتنے میں ایمرجنسی روم کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آیا۔ اس کا چہرہ جھکا ہوا تھا۔ ان کے قریب پہنچ کر ڈاکٹر پوچھنے لگا۔ آپ میں سے لڑکی کا والد کون ہے۔ سولہن تڑپ کر آگے بڑھا۔ ’’ ڈاکٹر صاحب۔۔ میری دھی کیسی ہے۔ وہ ٹھیک تو ہے نا‘‘ ۔ اس نے ڈاکٹر کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ رکھے تھے۔ آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ کائنات کی ماں بھی خاوند کے پہلو میں آن ٹھہری۔
’’ مجھے افسوس ہے ہم آپ کی بیٹی کو نہیں بچا سکے۔ ۔ڈاکٹر کی آواز بہت مدھم تھی۔۔ زہر صرف معدے تک ہوتا تو ہم صاف کر لیتے۔ لیکن وہ پورے جسم میں پھیل چکا تھا۔ اس کے گردے پہلے ہی خراب تھے۔ اوپر سے کچھ زہریلا پینے سے دونوں گردو ں نے کام کرنا چھوڑ دیا جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولتا چلا گیا۔ ۔۔سولہن کی آنکھیں پتھراگئیں۔۔اسے اپنی دھڑکن ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ۔۔۔ پر ۔ ڈاکٹر صاحب۔۔ اس نے تو صرف ۔ تلا۔۔تالاب کا پانی پیا تھا۔۔۔۔ اس کی آواز گہرے کنویں سے آتی محسوس ہوئی۔