"ڈال ہاؤس” تحریر عاصمہ تنویر
میری کھلونوں کی دکان ہے،انار کلی بازار میں ۔۔۔۔میرے پاس دیسی بدیسی ہر قسم کا کھلونا ہے، میں گاہک کی جیب اور ظاہری حالت سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ اسکی قوت خرید کتنی ہے،میرے پاس سو روپے سے لے کر ہزاروں روپے والے بھی کھلونے ہیں،
کافی دنوں سے میں یہ نوٹ کر رہا تھا کہ کوئی مسلسل میری دکان کی نگرانی کر رہا ہے مجھے شک ہوا کہ کہیں کوئی چور تو میری دکان کر ریکی نہیں کر رہا!!!
آخر ایک دن میں نے اُسے جا لیا،ارے ! یہ کیا یہ تو کوئی بچی تھی چھ سات سال کی ، ہلکے گلابی اور نیلے رنگ کے پھٹے ہوۓ فراک اور پائجامے سے معلوم ہو گیا،کہ کوئی فقیرنی تھی ،
میں نے اُسے ڈانٹ کر پوچھا، اوۓ تُو میری دکان میں کب گُھسی،اُسکا رنگ اُڑ گیا،بیچاری تھر تھر کانپ رہی تھی،مگر مجھے کوئی ترس نہیں آیا،
یہ سب فقیر جان کر اپنے بچوں کو ایسی حالت میں رکھتے ہیں تا کہ لوگ ترس کھا کر زیادہ بھیک دیں۔۔۔۔
دکان سے کوئی چیز تو نہیں اُٹھائی،وہ نفی میں سر ہلانے لگی،اسکی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوے تھے،اگر دوبارہ ادھر نظر آئی تو بہت ماروں گا اور پولیس میں دے دوں گا، چل دوڑ جا،
دکان میں گاہکوں کی موجودگی کی وجہ سے میں نے اُسے دھکے دینے سے گریز کیا،
وہ معصوم بچی دوڑتی ہوئی میری دُکان سے باہر نکل گئی،
چور ہوتے ہیں جی ،دُکانوں میں گھس کر دُکانوں کا سارا حال معلوم کرتے ہیں ،پھر ان کے بڑے دکان لوٹ لیتے ہیں ،میری دکان میں کھڑی بیگمات نے میری ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔۔۔
اگلے دن میں نے جب دکان کھولی تو وہ دکان کے باہر کھڑی تھی،اور شوکیس میں لگے کھلونوں کو دیکھ رہی تھی،تو پھر آگئی؟
صاب جی ، صاب جی۔۔۔۔۔میں نے سُنی ان سُنی کر دی۔۔۔۔۔اے کھڈونا کِنے دا اے؟؟(یہ کھلونا کتنے کا ہے) اُس نے پنجابی میں پوچھا۔۔۔میں نے اسے جواب نہ دیا۔۔۔۔۔۔وہ پھر بولی۔۔۔۔صاب جی۔۔۔۔۔
تو ادھر سے جاتی ہے کہ نہیں۔۔۔۔میں نے اُسے بازو سے پکڑ کے پیچھے دھکیلا،گندے ہاتھ نہ لگانا شیشے کو۔۔۔۔
وہ زور کا جھٹکا لگنے سے گر گئی ،کمزور سی تو تھی۔۔۔۔۔
او والا کھڈونا کِنے دا اے۔۔۔۔۔اب کی بار اُس نے دور سے اشارہ کیا،میں نے اُسے بھگانے کے لیۓ رقم تین گُنا زیادہ بتائی،وی ہزار روپے دا۔ (بیس ہزار)۔یہ انسانی فطرت ہے کہ۔۔۔۔
غریب کو اسکی غریبی کا احساس دلانے اور اپنی برتری ثابت کرنے، کے لیے ہم امیر لوگ اکثر اپنی کم قیمت اشیاء کی قیمت بھی زیادہ بتاتے ہیں۔
وہ ڈال ہاؤس کے بارے میں پوچھ رہی تھی،رقم سُن کر اُسے سمجھ ہی نہ آئی،کہ بیس ہزار کتنے ہوتے ہیں۔۔۔۔دور کھڑی رہی۔۔۔
میں دکان میں چلا گیا، مگر وقتاً فوقتاً اسے دیکھنے کے لیے باہر بھی آتا رہا ۔۔۔۔۔وہ رقم سُن کر جا چُکی تھی۔۔۔۔۔۔
دو چار دن آرام سے گزر گئے وہ نظر نہ آئی ۔۔۔۔۔۔۔یا میں نے توجہ نہ دی،کہ میرے ملازم نے بتایا،میں جب دوپہر تھوڑی دیر آرام کے لیے گھر جاتا ہوں تو کوئی بچی شوکیس کے باہر بیٹھ کر خیالوں میں ڈال ہاؤس کے ساتھ کھیلتی ہے ،اور مجھے آتا دیکھ کر بھاگ جاتی ہے۔۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔۔۔اگلے دن میں گھر جانے کی بجاۓ سامنے والی دکان میں جا کر بیٹھ گیا۔۔۔
وہ مقررہ وقت پر آئی اور شوکیس کے باہر بیٹھ کر اس نے پہلے ادھر اُدھر دیکھا۔پھر اشاروں سے کبھی "ڈال ہاؤس "میں موجود چیزوں کی جگہ بدلتی،گڑیا کو اوپر نیچے رکھتی۔۔۔۔اسی طرح کھیلتے کھیلتے اسے میرے آنے کا احساس ہوا اور وہ بھاگ گئی۔۔۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ اب بھی آتی۔۔۔۔۔۔ اور کھیل کر چلی جاتی ۔
مجھے یہ کھیل اچھا لگنے لگا،کبھی چاہتا اسے کھلونا دے دوں ،مگر پھر میں اس کھیل سے محروم ہو جاتا۔۔۔۔۔یا پھر مجھ میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ میں اتنا مہنگا کھلونا ایک فقیرنی کو دے دیتا۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اُسکا کھلونا نہیں بیچا۔۔۔۔۔۔کئی گاہکوں نے مجھے کھلونے کی منہ مانگی قیمت بھی دینے کی کوشش کی ،مگر میرا دل نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔میرے سامنے اُسکا میلا سا چہرہ آ جاتا۔۔۔۔۔اور میں چاہتے ہوۓ بھی ڈال ہاؤس بیچ نہیں سکا۔۔۔۔۔۔۔
اس نے آنا بند کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔سال بھی تو کتنے بیت گئے۔۔۔۔۔میرے بیٹے نے ڈال ہاؤس کو شوکیس سے ہٹانے کے لیے کہا تو میں نے ہٹانے نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے ۔۔وہ آۓ۔۔۔۔۔مگر اب تو وہ بڑی ہو گئی ہو گی۔۔۔۔۔
احساسِ ندامت جینے نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔کاش میں اُسے ڈال ہاؤس دے دیتا۔۔۔۔۔
اسے ڈھونڈنے کے لیے کچی بستی بھی گیا۔۔۔۔۔۔۔وہاں تو سب کی شکلیں ایک جیسی ہیں۔۔۔وہی گندے میلے چہرے اور پھٹے پرانے کپڑے۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔وہ
پھر ایک دن وہ آگئی۔۔۔۔
میری دکان میں ایک نوجوان لڑکی داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔۔اُسکے رنگ ڈھنگ سے لگ رہا تھا کہ تعلق اُس بازار سے ہے ،جسے ہم شریف اچھا نہیں سمجھتے،ساتھ اُسکا’ ملازم’ بھی تھا۔۔۔۔۔
یہ گڑیا گھر خریدنا ہے مجھے۔۔۔۔۔ وہ بولی۔۔۔۔۔۔بیس ہزار اکھٹے کرنے میں بہت ٹائم لگ گیا مجھے۔۔۔۔۔
پر شکر ہے تم نے اسے بیچا نہیں ۔۔۔۔۔۔اس نے غمزدہ مسکراہٹ کے ساتھ یہ جملہ بولا۔۔۔۔۔۔
ڈال ہاؤس بِک چُکا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور قیمت تھی ۔۔۔۔۔۔میرا تا حیات احساسِ ندامت!