نعیم صدیقی مرحوم کی نعت وقاص انجم جعفری بارگاہِ رسالتﷺ میں پیش کرتے ہیں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
یہ تیرےعشق کےدعوے،یہ جذبہ۶ بیمار
یہ اپنی گرمئ گفتار، پستی۶ کردار
رواں زبانوں پہ اشعار کھو گئی تلوار
حسین لفظوں کے انبار،اُڑ گیامضموں!
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
پہن کے تاج بھی غیروں کےھم غلام رہے
فلک پہ اُڑ کے بھی شاہیں اسیرِدام رہے
بنے تھےساقی مگر پھر شکستہ جام رہے
دل ونگہ پہ جاری فرنگیوں کافُسوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
عقیدتیں تِرے ساتھ اور کافری بھی پسند
قبول نکتہ۶توحید، بت گری بھی پسند
تِرےعدو کی گلی میں گدا گری بھی پسند
نہ کارساز خِرد ہے نہ حشرخیز جنوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
یہاں کہاں سے مجھے رفعتِ خیال ملے؟
کہاں سے شعر کو اخلاص کا جمال ملے؟
کہاں سے ‘قال’ کو گم گشتہ”رنگِ حال”ملے
حضور! ایک ہی مصرع یہ ہو سکاموزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں؟
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں