میانوالی سے تو صیف احمد کی تحریر ” نمکین رشتے "
نمکین رشتے توصیف احمد( میانوالی)
بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک بادشاہ کی تین بیٹیاں تھیں، تینوں بہت خوبصورت سمجھدار اور ذہین تھیں، ایک دن بادشاہ نے تینوں سے پوچھا کہ میں تمہارے لئے کتنا اہم ہوں؟ بڑی بیٹی بولی آپ میرے لئے اتنے اہم ہیں جتنا دن کے لئے سورج اہم ہے، بادشاہ خوش ہو گیا، دوسری بیٹی سے پوچھا تو وہ بولی آپ میرے لئے اتنے اہم ہیں جتنا رات کے لئے چاند، بادشاہ اس جواب سے بھی خوش ہوا جب تیسری بیٹی سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ابا جان ااپ میرے لئے اتنے اہم ہیں جتنا اہم سالن میں نمک ہوتا ہے، بادشاہ کو یہ جواب مناسب نہ لگا ، اس نے سوچا کہ اس بیٹی کے دل میں میرے لئے بس سالن میں نمک جتنی اہمیت ہے تو ایسی بیٹی کو میں اپنی مال و دولت میں سے حصہ کیوں دوں، سو اس نے اپنی تیسری بیٹی کو خود سے جدا کر دیا اور تھوڑی سی دولت اور ایک غلام اسے دے کر اپنے محل سے باہر نکال دیا۔
بیٹی کو اپنے باپ کے اس فیصلے پر بہت دکھ ہوا مگر وہ سمجھدار تھی اور باپ کے حکم کو مانتی ہوئی محل چھوڑ گئی، وہ اپنا سامان وغیرہ لے کر محل سے دور کھیتوں میں آ بیٹھی اور مستقبل کے بارے میں سوچنے لگی، اچانک اس کی نظر سامنے زمین پہ گئی تو دیکھا ایک پرندہ اپنی چونچ سے زمین کو کھودنے کی کوشش کر رہا تھا، شہزادی سمجھدار تھی وہ سمجھ گئی کہ ضرور زمین کے اندر خزانہ ہے، اس نے اپنے غلام کو زمین کھودنے کا حکم دیا اور جیسے ہی زمین کو کھودا گیا اسم میں سے ہیرے جواہرات سے بھرا صندوق برآمد ہوا، اس نے خزانہ دیکھتے ہی خدا کا شکر ادا کیا اور اس خزانے سے آس پاس کی زمین خرید کر اس پہ کھیتی باڑی شروع کر دی اور وہیں پر اپنا گھر بنا کر رہنے لگی۔
کافی عرصہ گزر جانے کے بعد شہزادی نے بادشاہ اور اپنی بہنوں کوکھانے کی دعوت پہ بلایا، شہزادی نے بادشاہ کے زوق کے مطابق طرح طرح کے کھانے بنائے اور دسترخوان کو انواع و اقسام کے کھانوں سے بھر دیا، بادشاہ وقت پر اپنے وزراء اور بیٹیوں کے ہمراہ شہزادی کے گھر پہنچ گیا، وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ میری تیسری بیٹی کا گھر ہے، شہزادی نے منہ پر نقاب ڈال کر بادشاہ کا استقبال کیا اور دسترخوان تک پہنچایا، بادشاہ دسترخوان دیکھ کر خوش ہو گیا اور کھانا کھانے لگا، جیسے ہی بادشاہ نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالا اسے کھانا کچھ بد مزہ لگا کیونکہ کھانے میں نمک نہیں تھا، ، اس نے دوسری ڈش میں سے کھانا شروع کیا مگر اس میں بھی نمک نہیں تھا، اب تو ایک کے بعد ایک ڈش چیک کی مگر نمک ندارد، اس نے تنگ آ کر شہزادی سے پوچھا آپ لوگ کھانے میں نمک نہیں ڈالتے تو شہزادی نے حیرانگی سے جواب دیا کہ نمک کیا ہوتا ہے؟ اس پر بادشاہ کو تعجب ہوا کہ ان لوگوں کو نمک کا بھی نہیں پتہ، اس پر بادشاہ نے نمک کی اہمیت کے بارے میں بتانا شروع کیا اور کہا نمک کے بغیر کھانے کا کوئی ذائقہ نہیں ہوتا، نمک تو کھانے کے لئے بہت ضروری ہے، اس کے بغیر کھانا کھایا ہی نہیں جاتا اور تم لوگوں کو نمک کا پتہ ہی نہیں ہے، میں تو ایک لقمہ بھی نہیں کھا سکتا اس کھانے کا ہٹا لو میرے سامنے سے۔ اس پر شہزادی نے اپنے چہرے سے نقاب اتارا اور بولی مجھے پہچانیں بابا جان، میں آپکی وہی بیٹی ہوں جس نے آپ کو کہا تھا کہ آپ میرے لئے اتنے ضروری ہو جتنا کھانے میں نمک مگر اس وقت آپ نے مجھے محل سے باہر نکال دیا تھا اور آج آپ نمک کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں، بادشاہ بیٹی کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھ سے ظلم ہوا، واقعی کسی معمولی سی چیز کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے، وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوا اور شہزادی کو واپس اہنے ساتھ محل میں لے گیا۔
اس شہزادی کی سوچ کو اگر پرکھا جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہو گا کہ نمک جیسی معمولی سی چیز کی کمی اگر مکمل کھانے کو بد مزہ کر سکتی ہے تو کسی ایک انسان کی کمی آپ کی زندگی کو کس طرح سے بے نور کر سکتی ہے ۔ اور اس بادشاہ کی سوچ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسان خود نمائی کے چکر میں خود کو سورج چاند تو سمجھ بیٹھتا ہے مگر کسی معمولی چیز سے اسکو تعبیر دے دیا جائے تو اس کی اہمیت سے بے خبر ہو کر تکبر و غرورکے نشے میں دوسروں کو مکھی سمجھ کر مسل دیتا ہے۔ دنیا میں بے شمار چیزیں ہیں جن کو ہم معمولی سمجھ کر اسکو اہمیت دینے سے انکار کر دیتے ہیں مگر وقت آنے پر جب وہ چیز ہمیں میسر نہ ہو تو ہم پچھتاوے کے اس گہرے کنویں میں گر جاتے ہیں جہاں سے ہماری آواز صرف ہمارے ہی کانوں میں زہر گھولتی ہے۔
یہ کہانی تھی تو بچوں کے لئے مگر افسوس آج اس کہانی کی بڑوں کو زیادہ ضرورت ہے، یہ ہمیں سبق دیتی ہے کہ اپنی زندگی میں شامل کسی بھی چیز کو معمولی مت سمجھو، کیونکہ خدا نے کوئی بھی چیز معمولی نہیں بنائی، ہر چیز کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ ہم روزانہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں بیشمار چیزوں کو غیر اہم سمجھ کر انہیں اگنور کر دیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ وقت آنے پر یہ غیر اہم چیزیں کتنی اہمیت کی حامل بن جاتی ہیں۔ ہم خدا کی دی ہوئی زندگی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے، اس کی دی گئی لا تعداد نعمتوں کو غیر اہم سمجھتے ہیں مگر جب حقیقت کا ادراک ہوتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ واقعی خدا نے آج تک کوئی بھی چیز بے فائدہ نہی بنائی۔ ہمارے جسم کے اعضاء آنکھ، کان، ہاتھ پاؤں جب تک وہ صحیح سلامت رہتے ہیں ہم پرواہ نہیں کرتے مگر جب کسی ایک عضو کو بھی کسی قسم کا نقصان پہنچ جاتا ہے تو ہم احساس کی اس دلدل میں ڈوب جاتے ہیں جہاں پر صرف پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔ آج ہم رشتوں کو بھی چیزوں کی طرح استعمال کرتے ہیں، ہم رشتوں کو انکی حیثیت کے حساب سے ڈیل کرتے ہیں، کسی کو سورج یا چاند سمجھ کر اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں اور کسی کو نمک سمجھ کر تھوک دیتے ہیں، ہمارے یہ روئیے ہماری زندگی کو ویرانیت کی اس سرحد پہ لے جا رہے ہیں جس کے آگے وحشت کا ایسا تنگ و تاریک جنگل ہے جہاں پے اکیلا رہنا کسی خوفناک اذیت سے کم نہیں، ہم اس دنیا کو اپنے لیے ایسا قید خانہ بناتے جا رہے ہیں جس میں صرف قید تنہائی دی جاتی ہے۔ اور یہ صرف اپنے رشتوں کو اہمیت نہ دینے کی وجہ کا نتیجہ ہوگا۔
فی زمانہ یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ آجکل ٹائم ہی کب ہوتا ہے کہ رشتوں کو وقت دیا جائے ، نفسا نفسی کا دور ہے، اور بات بھی یہ درست ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو اتنا الجھا لیا ہے کہ اب اپنوں کے لئے بھی ٹائم نکالنا مشکل ہو چکا ہے اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ اور موبائل فونز نے نکال دی ہے کہ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے سب انجان بن کر سوشل پرسن بننے میں مصروف ہوتے ہیں، اس کمیونیکیشن گیپ نے ہمیں اپنوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر وہ انسان ہی کیا جو سانس لئے بغیر زندہ رہ سکے، ہمارے اپنے، ہمارے رشتے ہمارے لئے آکسیجن کا کام دیتے ہیں بس ذرا سی ہمت کرنے کی دیر ہے، رشتوں کو اہمیت دینا شروع کریں وقت خود بخود نکل آئے گا۔
تو ہمیں اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے جو کرنا ہے وہ آج سے ہی کرنا ہے، آج ہی سوچو اور کر گزرو اپنوں کو ٹائم دو اپنے رشتوں کی اہمیت کو سمجھو کیوں کہ یہ رشتے کھانے میں نمک کی طرح بہت ضروری ہیں اور انہی نمکین رشتوں سے زندگی ذائقہ دار بنتی ہے ۔