نثر

بچپن کی عیدوں سے جڑی چند یادیں

بچپن کی عیدوں سے جڑی چند یادیں ………….. تحریر عظمیٰ خان رومی
بڑی عید کے اپنے ہی رنگ ہیں. عید کے دو دن تیار ہونے، کھانے پکانے اور مہمانداری کی گہما گہمی میں پلک جھپکتے گزر گئے. عید کی خوشیاں سہج سہج منصوبہ بندی سے بنائی جاتی ہیں. خود بنائی خوشیوں کو منانا لمحوں کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیتا ہے. سو آج جب لکھنے کی میز پر بیٹھی ہوں تو گزرے بچپن کی عیدیں یاد آنے لگی ہیں. ہم لوگ کمبائن فیملی تھے اور کمبائن فیملی کی عیدیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں. تب عیدیں سردیوں میں آیا کرتی تھیں. میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی لیکن سب سے آخر میں اٹھتی تھی. قربانی کا منظر کافی روح فرسا ہوتا تھا لیکن بچے زیادہ دیر تک اداس نہیں رہ سکتے. اور عید کے دن تو بالکل بھی نہیں.
قربانی کے فوراً بعد بڑے ابو بابا حیات کے گھر گوشت دینے جاتے. ہم بچے ان کے ساتھ ساتھ ہوتے. بڑے ابو ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھے اور ضعف کے باعث دھیرے دھیرے لاٹھی ٹیکتے ہوئے چلتے تھے. راستے میں بچے دادا جی کی عمر کا خیال کرتے ہوئے شرارتوں اور بھاگنے سے گریز کرتے اور سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتے. لیکن جب دور سے کوئی گاڑی یا موٹر بائیک آتی دکھائی دیتی تو اب خیال کرنے کی ذمہ داری بڑے ابو پر آن پڑتی جو فوراً چوکنا ہو جاتے اور بڑی پھرتی سے ہم تینوں کو اپنے قریب کر کے کھڑے ہو جاتے اور ٹریفک کے گزرنے کا انتظار کرتے. یوں ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے بڑے ابو اور ہم بچے مین روڈ کے پار تین گلیاں ادھر واقع بابا حیات کے گھر پہنچ جاتے. بابا حیات بڑے ابو کے بچپن کے دوست تھے. ان کی بیوی عرصہ دراز پہلے وفات پا چکی تھیں. ایک بیاہی بیٹی تھی جس کے ساتھ رہنا بابا حیات کی غیرت کو گوارا نہ تھا. سو اپنے گھر میں اکیلے رہتے تھے. بڑے ابو کا روزانہ کا معمول تھا کہ دس گیارہ بجے کہ قریب کھانا لے کر بابا حیات کے گھر چلے جاتے اور دوپہر کے بعد واپس آتے. گھر کے باہر ایک بڑا صحن تھا جس میں بابا حیات اور بڑے ابو مل کر سبزیاں اگایا کرتے تھے. ان دونوں کی دوستی میں بہت بچپنا تھا. دونوں کو بابا کہلوانے سے چڑ تھی اور دونوں ایک دوسرے کو بابا کہتے تھے. اکثر باتوں پر ایک دوسرے سے بحث کرنے لگتے. بحث طویل ہونے لگتی تو بڑے ابو اپنے قدرے تنومند ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی لاٹھی کا مڑا ہوا سرا بابا حیات کی گردن میں ڈال کر کھینچتے اور ہن دس کا نعرہ لگاتے جس پر بابا حیات خفا سے انداز میں خاموش ہو جاتا اور بڑے ابو بحث جیت جاتے. جھگڑوں کے باوجود دونوں بزرگ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہتے تھے. روزانہ ایک دوسرے کے ساتھ گھنٹوں وقت گزارتے، بحثیں کرتے اور صحن میں سبزیاں اگاتے. ایک دن بڑے ابو کی طبیعت ناساز تھی. انہوں نے گھر کے ملازم کے ہاتھ بابا حیات کے گھر کھانا بھجوا دیا. وہ بابا کے دراوزے پر دستک دیتا رہا لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا. ہمسائیوں کے ساتھ مل کر دروازہ توڑا تو اندر پلنگ پر بابا حیات مردہ پڑے تھے اور ایک تسبیح ان کے ہاتھ سے لٹک رہی تھی. اس واقعے کے بعد بڑے ابو بھی دل چھوڑ گئے. چند سال پہلے ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا لیکن انہوں نے بڑی ہمت سے بیماری کا مقابلہ کیا تھا. وہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے اور روزانہ ہلکی پھلکی ورزش کیا کرتے تھے. لیکن بابا حیات کے چلے جانے کے بعد وہ بالکل مایوس ہو گئے اور مزید بیمار ہوتے چلے گئے. سات ماہ بعد ایک صبح ان کا انتقال ہو گیا.
بابا حیات کے گھر سے واپسی پر ہم بہن بھائی عیدی وصول کرتے اور راجا کی دکان کا رخ کرتے. راجا کی دکان سے ہم بغیر پیسے دیئے بھی چیزیں خرید لیا کرتے تھے. اس شاپنگ کا راز بھی بچوں اور بڑے ابو کے درمیان محفوظ تھا. گھر کے دیگر بڑوں پر یہ عقدہ بڑے ابو کی وفات کے ایک مہینے بعد کھلا جب راجا ہمارے گھر بڑے ابو کے پیسے واپس کرنے آیا. اس نے بتایا کہ بابا جی ہر ماہ پنشن آتے ہی تین سو روپیہ ایڈوانس اس کی دکان پر رکھوا دیتے تھے تاکہ بچے وہاں سے چیزیں خرید سکیں. بڑے ابو کے جانے کے بعد بچے بھی راجا کی دکان پر مفت خوری کرنے نہیں گئے تو وہ ایڈوانس واپس کرنے آ گیا.
عید کی خوشیوں میں بڑوں والی مخصوص بوریت کا عنصر اس وقت عود آیا جب آٹھویں جماعت میں میرا باہر جانا بند ہوا. چھوٹے بہن بھائی عیدی لے کر بازار کا رخ کرتے اور میں اکیلی گھر میں بور ہوتی رہتی تھی. تین چار عیدیں اس پابندی کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں لگ گئیں۔ لیکن اس دور کی اپنی مصروفیات ہوتی تھیں. گھر میں مجھ سمیت سات خواتین تھیں. عید سے پچھلی رات بارہ ایک بجے تک مہندی لگائی جاتی. میں بہت اچھی مہندی لگاتی تھی اس لیے یہ کام میرے ذمے تھا. محلے کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی ہمارے گھر آ جاتی تھیں کہ آپی پلیز مہندی لگا دیں. میں ان کے ہاتھوں پر جلدی جلدی ایک دو پھول بنا دیتی اور وہ اسی میں خوش ہو جاتیں. میری دادی کو مہندی لگوانے کا بہت شوق تھا. سب سے پہلے مہندی لگواتی تھیں. اس دن بار بار پوچھتی رہتیں کہ مینوں مہندی لانی اے یا میں آپے لا لاں. اور آپے لگانے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ بڑی امی تھوڑی سی مہندی شیمپو کی طرح ہاتھ پہ رکھیں گی اور ہتھیلیوں پہ مل لیں گی.
بچپن کی ایک اور بات یاد آ گئی. ماہِ رمضان میں گاؤں سے ایک مہمان تشریف لائے. کہنے لگے کہ گاؤں میں ہم لوگ تو روزوں میں ہی قربانی کا جانور خرید لیتے ہیں کہ سستا پڑتا ہے. اگر آپ نے بھی بچت کرنی ہے تو کچھ پیسے مجھے دے دیں. میں آپ کے لیے بھی اچھا سا جانور خرید لوں گا. اگلے دو مہینے ہمارے جانوروں کے ساتھ پلتا رہے گا. بڑی عید کے قریب میں شہر آؤں گا تو آپ کا جانور بھی ساتھ لیتا آؤں گا. عید سے دو دن پہلے بکرا پہنچ گیا. دانتوں کا پورا تھا لیکن جسامت میں کتے کے برابر. بڑی نازک صورتحال ہو گئی. بکرا تو رکھ لیا گیا کہ پیسے دے دئیے تھے لیکن ہم بچوں پر پابندی لگ گئی کہ اس بکرے کو کوئی باہر نہ لے کر جائے ورنہ ہمسائے مزاق بنائیں گے. بچے ضد کرتے رہ گئے کہ بھلا ہم نے قربانی اللہ کو دکھانے کے لیے کرنی ہے یا ہمسائیوں کو دکھانے کے لیے، لیکن بکرے کو باہر گھمانے کی اجازت نہ ملی.

Back to top button