کتب خانوں کی اہمیت اور افادیت
سیدہ شباہت فاطمہ
کتب خانوں کا تصور بہت قدیم ہے اور زمانہ قدیم سے ہی کتب خانے معاشرہ کی فکر اور علمی ترقی میں مددگار رہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی عہد کی مجموعی ترقی میں علم اور فکر کو ہی دخل حاصل رہا ہے ۔ کتابیں علم وحکمت کا خزانہ ہو تی ہیں اور شعور ادراک کی دولت قوموں کو اسی خزانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ کسی بھی قومی معاشرے میں کتب خانوں سے ایک طرف تو امن اور دوستی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو قوموں کے افراد کے ذہنوں کو تخلیقی اور تعمیری رجحانات دیتی ہے اور وہ تہذیب وتمدن سے آشنا ہو کراتحاد و اتفاق سے زندگی گزارنے کا فن سیکھتے ہیں اور اس طرح متعلقہ معاشرہ پوری طرح پرسکون اور تعمیری بن جاتا ہے ۔
> > قومی زندگی میں کتب خانوں کو ان کی اصل اہمیت مسلمانوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے ۔ لیکن قابل افسوس امر ہے کہ وہ اسلام دشمن قوتیں جن کا صدیوں سے یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اسلام کو نقصان پہنچائیں بنیادی طور پر مسلمانوں کے کتب خانوں کو تباہ و برباد کرتی رہی ہیں بلا شبہ اسی خیال سے کہ ان کی موجودگی انہیں فکری اعتبار سے اور علمی لحاظ سےخود اپنےتباہ ہو جانے کا خطرہ تھا ساتھ ہی ساتھ اہل یورپ مسلمانوں کی کتابوں کو اپنی جاگیریں بتاتے رہے اور انہوں نے مسلمانوں کی تحریر کردہ کتابوں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نہ صرف ان کتابوں کی حفاظت کی جائے جو ہمارا سرمایہ ہیں بلکہ جدید دور کے تقاضوں کو پوری کرنے والی کتابوں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو سکھانے والی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرکے انہیں کتب خانوں کی زینت بنایا جائے تاکہ ہر خاص و عام کو جدید علم حاصل ہو اور ملک کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھل سکیں ۔