خاور جمال کی اُچھوتی تحریر …. دنیا کے آسیب زدہ ہوٹل اور میں "
دنیا کے آسیب زدہ ہوٹل اور میں………………… تحریر خاور جمال
کسی بھی ہوٹل کا آسیب زدہ نہ ہونا نوے فیصد آپ کے یقین پر منحصر ہے ۔ باقی دس فیصد اُس نوے فیصد یقین کے اُس وقت پرخچے اُڑا دیتا ہے جب بیچ رات میں آنکھ کھُلے اور محسوس ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی لیٹا ہوا ھے، کمرے کا پردہ اپنے آپ کھُلنے اور بند ہونے لگے یا غسل خانے میں نل خود بخود چل پڑے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں، آسیب زدہ ہوٹلوں میں یہ عام سی بات ہے۔
راز کی بات ہے لیکن آپ کو بتا رہا ہوں، تقریباً ہر ہوٹل میں کچھ کمرے بھاری ہوتے ہیں۔ سال ہا سال دُنیا کے مُختلف ہوٹلوں میں قیام کرنے کے بعد اب تو کمرے میں داخل ہوتے ہی محسوس ہو جاتا ہے کہ سب ٹھیک ہے یا کچھ گڑبڑ ہے۔ میری عادت ہے کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی بلند آواز سے السلام و علیکم کہتا ہوں، دوست مذاق اُڑاتے تھے کہ ایک دن ضرور وعلیکم السلام کی آواز آئے گی۔ پھر وہی ہوا، آواز آئی وعلیکم السلام آو بیٹا، کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک سینئر کھڑے ہیں۔ پوچھا سر آپ یہاں کیسے؟ کہنے لگے بیٹا یہ کمرہ تو مجھے دیا گیا ہے۔ میں نے لسٹ چیک کی تو پتہ چلا ہم دونوں کو غلطی سے ایک ہی کمرہ الاٹ کر دیا گیا تھا ۔ استقبالیہ پر جا کر دوسرا کمرہ لیا، دروازہ کھول کر ڈرتے ڈرتے سلام کیا ، شکر ہے اس مرتبہ جواب نہیں آیا۔
لیپ ٹاپ آپ سب لوگ استعمال کرتے ہوں گے۔ میں بھی کرتا ہوں ۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ لیپ ٹاپ بند کر کے رکھ دیں اور دس گھنٹے بعد خود بخود چل پڑے اور وہ بھی سردی کی رات کے مکمل سناٹے میں جب آپ اکیلے سو رہے ہوں انگلستان کے وکٹورین طرز تعمیر کے حامل ہوٹل کے کمرے میں ؟ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم تین لوگ میرے اسی کمرے میں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے۔ میرے لیپ ٹاپ پر پنکج اُدھاس کا گیت چل رہا تھا،
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا
سونے جیسے بال
مجھے نیند آ رہی تھی، دوستوں کو رخصت کیا، لیپ ٹاپ کو بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور سو گیا۔ جس دم آنکھ کھُلی، اندھیرے کمرے میں پنکج صاحب کی آواز گونج رہی تھی،
چاندی جیسا رنگ ہے تیرا
سونے جیسے بال
چند لمحوں کے لیے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ میں ہوں کہاں اور ہو کیا رہا ہے۔ پھر جب سمجھ آئی تو آنکھیں جو کھُلی تھیں وہ اُبل کر باہر آ گئیں۔ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ چونکہ گیت کی ریکارڈنگ لائیو تھی اس لیے سامعین کی واہ واہ کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں بیڈ پر بیٹھا گانا گا رہا ہوں اور نیچے قالین پر بھائی لوگ بیٹھے واہ واہ کر رہے ہیں۔ ہمت کر کے لیپ ٹاپ اُٹھایا۔ گانا مسلسل بج رہا ہے، اسکرین کھولی، بلکُل بلینک ، پاور کا بٹن دبایا تو کہیں جا کر پنکج بھائی کی روح کو سکون آیا۔ آج تک میں نے وہ گانا دوبارہ نہیں سُنا۔
ایک خاتون ساتھی کچھ یوں بیان کرتی ہیں کہ غالباً یہی ہوٹل تھا یا اُسی شہر میں کوئی اور ہوٹل، رات کے دو بجے کسی نے کمرے کا دروازہ اس زور سے پیٹا کہ گھبراہٹ سے آنکھ کھُل گئی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ فلائٹ پر ساتھ آئی ہوئی ایک ساتھی لڑکی ہے۔ جلدی سے دروازہ کھول کر اُسے اندر بُلایا، چہرا زرد، بال بکھرے
ہوئے، سانس اس قدر پھولی ہوئی تھی کہ منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ جب اُسکے ہوش و حواس دُرست ہوئے تو اُس نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے ہی اُس کی آنکھ لگی تھی، اچانک آنکھ کھُلی اور محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی موجود ہے اور مُجھے دیکھ رہا ہے۔ حالت یہ تھی کہ بالکل جم کر رہ گئی تھی، صرف آنکھیں حرکت کر رہی تھیں۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ڈریسنگ ٹیبل کی کُرسی کا رُخ بیڈ کی طرف مڑ چُکا ہے ( جو کہ سوتے وقت شیشے کی طرف تھا)، اور اُس پر میرے مرحوم ماموں جان براجمان ہیں اور مُجھ سے بات کر رہے ہیں لیکن مُجھے اُن کی آواز نہیں آ رہی۔ بہت مشکل سے درود شریف اور آیت الکرسی پڑھتے ہوئے کمرے سے نکل پائی ہوں۔
آپ میں سے کافی لوگوں کو ، عموماً رات کو نیند کے درمیان، ایسا محسوس ہوتا ہو گا کہ آپ کے سینے پر غیر معمولی دباﺅ پڑ رہا ہے، اُٹھنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن اُٹھ نہیں پاتے، منہ سے آواز نہیں نکل پاتی۔ بڑی جدوجہد کے بعد جب اس حالت پر قابو پاتے ہیں تو آپ خوف کی ایک کیفیت میں گھر جاتے ہیں کہ اس کمرے میں جن بھوت ہیں۔ اگر تو آپ کو مکمل یقین ہے کہ یہ جن بھوت ہی ہیں اور آپ کی امی نے بھی آپ کو یہی بتایا ہے تو پھر کسی عامل بنگالی بابا سے رابطہ کریں ورنہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ اس صورتحال کو سلیپ پیرالسس یا نائٹ ہاگ کہا جاتا ہے یعنی نیند کا فالج۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں ڈیپریشن، بے چینی ، غیر معمولی جسمانی مُشقت، بہت کم نیند لینا، بلکل سیدھا لیٹ کر سونا شامل ہیں۔ مُجھے اکثر فلائیٹ کے بعد اس صورتحال سے گذرنا پڑتا ہے خاص طور پر جب فلائیٹ نہایت غیر انسانی وقت پر ہو یعنی آدھی رات کو۔ چنانچہ کم نیند کا عنصر شامل ہو گیا۔ اُس کے بعد آتی ہے غیر معمولی جسمانی مُشقت۔
ہاں! دور کے ڈھول سُہانے، اب کیا کیا بتاوں آپ کو۔ اکثر تھکاوٹ کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بستر پر کمر سیدھی کرتے ہی نیند آ لیتی ہے۔ چنانچہ یہ عناصر مل کر مجھے اور کافی دوسرے ساتھیوں کو سلیپ پیرالسس جیسی صورتحال سے دوچار کر دیتے ہیں۔
اسپین جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے بہت پیارے ساتھی شاہ جی بھی اُسی پرواز پر ہمسفر تھے۔ شاہ جی کو روانگی سے قبل ہی پکی مُخبری تھی کہ ہوٹل مکمل طور پر بھائی لوگوں کے قبضے میں ہے (یعنی آسیب زدہ ہے)۔ قُرعہ میرے نام نکلا کہ یا تو شاہ جی کے ساتھ والا کمرہ میرا ہو گا یا پھر ہمارا قیام ایک ہی کمرے میں ہو گا۔ کمرہ تو شاہ جی کے ساتھ والا ہی تھا لیکن اُنھوں نے مُناسب سمجھا کہ دونوں بھائی ایک کمرے میں ہی سوتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے کام آ سکیں۔ میں نے حامی بھر لی اور اُن کو کمرے میں خوش آمدید کہا۔ بس غلطی یہ ہوئی کہ شاہ جی کو اپنی نیند کے فالج والی عادت کے بارے میں بتانا بھول گیا۔ میں جلدی سو گیا اور شاہ جی موبائل پر گیم کھیلنے لگے۔ تقریباً بیس منٹ بعد ہی وہ گھڑی آن پُہنچی جس کا انتظار تھا۔ مجھ پر ، بقول شاہ جی کے، اُس عفریت کا حملہ ہو گیا، میں دائیں بائیں سر ہلانے لگا، سانس پھولنے لگی اور جسم لرزنے لگا۔ کچھ لمحوں بعد جب میں اُس کیفیت سے نکلا، اور میرے حواس جگہ پر آئے تو میں نے شاہ جی کی طرف دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جو گیم وہ کھیل رہے تھے اُس میں اُن کا چانس (ہیرو) مر چُکا ہے، دونوں ہاتھ ابھی تک موبائل پر ہی ہیں، جسم ساکت ہے، اور چہرے کے تاثرات ایسے ہیں جیسے کسی ایسی چیز سے دھوکا کھایا ہو اُنھوں نے جو اُن کو سمجھ بھی نہ آ رہی ہو۔ میں نے فوراً شاہ جی سے معذرت کی اور اس صورتحال کے بارے میں بتایا۔ کہنے لگے خاور بھائی ! اے چنگی کیتی تُسی میرے نال ( یہ اچھا کیا آپ نے میرے ساتھ)۔ باقی کے دو دن شاہ جی نے اس بارے میں مُجھ سے کوئی بات نہیں کی، شاید وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں انھی جنوں کا ساتھی بن گیا ہوں اور زیادہ بات کرنے پر بُرا نہ مان جاﺅں۔
اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں قیام تھا۔ چنگا بھلا ، پورا دن ہنسی خوشی گزارا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سلیپ پیرالسس بچپن سے ہوتا آ رہا ہے اس لیئے یہ میرے لیئے کوئی خاص بات نہیں۔ اُس رات بھی یہی ہوا، جانے کب بیچ رات میں وہ کیفیت طاری ہو گئی۔ جب حواس قابو میں آئے تو دیکھا میں بیڈ پر بیٹھا ہوا ہوں ( حالانکہ میں سیدھا لیٹ کر سویا تھا)، کمرے کی لائٹ جل رہی تھی (جو میں کبھی نہیں جلا کر سوتا)۔ ابھی یہ صورتحال سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ موبائل کے چارجر کی تار پر نظر پڑی ( جس کو سونے سے پہلے موبائل میں لگایا تھا) جو قالین پر پڑی تھی۔ تار اُٹھانے کے لیئے جھُک کر ہاتھ بڑھایا تو تار آگے کو سرک گئی، بالکل کسی سانپ کی طرح۔ ابھی اس غیر معمولی بات پر خوفزدہ ہونے ہی لگا تھا کہ ٹوائلٹ کا دروازہ کھُلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ فوراً دروازے کی طرف لپکا تو اُسے بند پایا لیکن اُسی لمحے کمرے کا دروازہ کھُلنے اور بند ہونے کی آواز آئی ۔ کمرے کے دروازے کے دستے پر جیسے ہی ہاتھ رکھا کوئی چیز تیزی سے سرکتی ہوئی پاﺅں کے اوپر سے گذری اور دروازے اور فرش کی درمیانی درز سے باہر نکلنے لگی جس پر میں نے فوراً پاﺅں دے مارا۔ فرش پر پاﺅں مارنے سے ایک گونج سُنائی دی اور میری آنکھ کھُل گئی۔
میں اُسی طرح بستر پر سیدھا لیٹا ہوا تھا،
لائٹ بند تھی،
چارجر کی تار موبائل میں لگی تھی،
دونوں دروازے بھی بند تھے۔