راکا پوشی کا چیلنج اور چند نوجوان سر پھرے بادل!. وقار احمد ملک
اندھیرا چھانے لگا جب گلگت سے ہنزہ کے لیے کوسٹر روانہ ہوئی۔ میں اس سیٹ پر بیٹھا تھا جو ایک ہنزائی نے مجھے دے کر گلگت قیام کر لیا تھا۔ کوسٹر نے دریائے گلگت کو عبور کیا۔ دینیور میں دکانیں بند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
دینیور کا قصبہ عبور کرتے ہی مجھے عجیب احساس جکڑ لیتا ہے۔ خوش بخت ہونے کا احساس۔
میں اب اس وادی میں رواں ہوں جہاں کی خوبصورتیوں کی تاب لانا کہاں ممکن رہتا ہے۔ سڑک اور اردگرد ہر جانب کام کرتی خواتین، نوجوان لڑکیاں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے قراقرم ہائی وے پر خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ نوجوان لڑکے دوڑے پھرتے ہیں۔ مجال ہے کسی کے کپڑے پر کوئی داغ، کوئی میل کا نشاں تک ہو۔
کبھی آپ نے دیوار پر رینگتی ایک دوسرے کے مخالف سمت آتی چیونٹیوں کے قافلے دیکھے ہیں۔ ہر چیونٹی دوسری سمت سے آنے والی چیونٹی سے معانقہ کرتی ہے۔ سیکڑوں ہزاروں چیونٹیاں ہر صورت دوسری سمت سے آنے والی چیونٹیوں کو مل کر آگے جاتی ہیں۔ گلگت سے ہنزہ تک کا سفر کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں لڑکے لڑکیاں بزرگ ہر جگہ رکے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی سے مل رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں کو بوسہ دینا اور پھر آنکھوں سے لگانا صدیوں پرانی روایت ہے۔ اس میں جنس کی کوئی تفریق نہیں۔ بچے ٹولیوں میں پھرتے ہیں۔ کوئی کسی دیسی یا بدیسی سیاح کو دیکھ کر گھورتا نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بچے کسی سیاح کو دیکھ کر ترنم سے ویلکم ویلکم کہہ دیتے ہیں۔ ہنزہ نگر کے بچے اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ سیاح ان کو پیار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو محبت سے چاکلیٹ ٹافیاں یا پنسلز دینا چاہتے ہیں۔
ایک وقت آیا تھا کہ جب بچوں میں یہ عادت پڑ گئی تھی۔ ہر سیاح کو دیکھ کر امید باندھ لیتے کہ یہ شاید کچھ دے گا۔ اور کچھ دلیر بچے سیاحوں 01کے پاس جا کر مانگ لیتے تھے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہنزہ کا سماج اس حرکت کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ فوری طور پر سکول وغیرہ کی سطح پر نصاب میں بچوں کی اس تربیت کو ڈالا گیا۔ اور اب آپ جانتے ہیں کہ پورے ہنزہ میں کوئی بچہ ایسی حرکت کرنے کا تصور نہیں کرتا۔
اچھے اور ذمہ دار معاشرے ایسے ہی ہوتے ہیں جو اپنے ہر طبقے کی ضرورتوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ ہنزہ میں بہت کم’ سپیشل لوگ ‘ ہیں۔ لیکن ان پر بھی تحقیق ہوئی اور ایک ایک سپیشل فرد کا مطالعہ کیا گیا کہ یہ کونسا ایسا کام کر سکتا ہے جس سے یہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو جائے اور معاشرے پر بوجھ نہ رہے۔
ہمارے ایک فوجی افسر دوست تھے جو کچھ عرصہ ہنزہ رہے تھے۔ ہنزہ کے نظم و ضبط سے شدید متاثر تھے، ہر کسی سے کہتے پھرتے تھے، کہ یا تو ہنزہ کو چین کے حوالے کر دیں تاکہ اس کی اس ترقی کو نظر نہ لگے اور یا پھر پاکستان کی قیادت ہنزائیوں کے حوالے کر دینی چاہیے تا کہ پورا پاکستان ہنزہ بن جائے۔
اب وہ وقت دور نہیں ہے جب نگر بھی ہنزہ سے پیچھے نہیں رہے گا۔02
محبت اور احترام یہاں راکاپوشی سے آتے جھاگ اڑاتے پانیوں کی طرح اپنی موجودگی کا چیخ چیخ کر بتاتے ہیں۔ ہر جانب محبت کے بلبلے ہیں۔ جیسے بلبلے میں سورج کی کرن رنگ بکھیر دیتی ہیں اور کرن کے داخل ہونے کے بعد بلبلہ اترا کر حرکت کرتا ہے۔ ایسے ہی نگر اور ہنزہ کے باسی ہیں۔ محبت کی کرن سے چہرے قوس قزح ہیں۔ اور تھوڑا اترا کر چلتے ہیں۔ اور کیا برا ہے کہ ان کو اترانا زیب دیتا ہے
میں نے ہنزہ جاتے ہوئے کبھی پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر نہیں کیا تھا۔ میرے لیے یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ سماجی مطالعے کے لیے یہ ایک بہترین نسخہ ہے۔ تمام سواریاں بروشسکی زبان میں بات کر رہی ہیں۔ نہیں معلوم کیا بول رہی ہیں لیکن بیچ میں انگریزی کے الفاظ موضوع کی سمت کا پتہ دیتے ہیں۔ ویجیٹیبل، پوٹیٹوز، ایپریکاٹ، وغیرہ بتاتے ہیں کہ میری ساتھ والی سیٹ پر دو صاحبان شاید زراعت کے حوالے سے کچھ گفتگو کر رہے ہیں۔
صاف ستھری برینڈڈ شرٹ میں ملبوس ایک سمارٹ کنڈیکٹر راستے میں سواریاں اور ان کا سامان اتارتا جا رہا ہے۔ ہر نیچے اترنے والی سواری یا سواریوں کو خدا حافظ کہتے کہتے پانچ منٹ لگا دیتا ہے۔ کسی کو جلدی نہیں ہے۔ میں الگ تھلگ بیٹھا کسی اور دنیا کی مخلوق لگ رہا ہوں۔ دلجوئی کے لیے ایک این جی او کے افسر میرے پاس آتے ہیں اور پوچھتے ہیں، آپ بور تو نہیں ہو رہے؟ کہاں سے آ رہے ہیں؟ لاہور سے۔ ۔ اچھا اچھا لاہور تو بہت اچھا شہر ہے۔
مجھے دکھ ہوا جب ایک چھوٹی سی بچی نے معصومیت سے کہا، ”لاہول جہاں بم دھماکے ہوتے ہیں“
مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا ہو۔ ساتھ بیٹھی ایک خاتون نے بروشسکی میں بچی کو ڈانٹا۔ ایک صاحب نے شرمندہ ہوتے ہوئے معذرت 03بھرے لہجے میں مجھے کہا، ”وہ اصل میں آپ کو پتہ ہے ہر گھر میں ٹی وی ہے اور ٹی وی پر زیادہ تر یہی خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔ لاہور میں گذشتہ کچھ عرصہ میں دھماکے بہت زیادہ ہوئے ہیں۔ اس نے کہیں ٹی وی سے ہی سنا ہو گا“ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ایک ہنزائی نوجوان (جو بعد میں معلوم ہوا این سی اے لاہور میں پڑھتا تھا) پیچھے مڑا اور بچی کو چمکارتے ہوئے کہنے لگا، ”کاکو میں لاہور میں ہوتا ہوں، وہاں شاہی قلعہ ہے، بادشاہی مسجد ہے، بہت سی پرانی تاریخی عمارتیں ہیں جیسے ہمارا بلتت فورٹ ہے۔ لاہور کے کھانے بہت مشہور ہیں۔ وہاں ڈھول بھی ہے اور لو گ ناچتے بھی ہیں “ ڈھول اور ناچنے کا سن کر بچی مسکر ااٹھی اور میرے دل کو بھی کچھ جھوٹا حوصلہ ہوا۔
ایک اور نگر کے صاحب میرے پاس آئے اور پوچھنے لگے، ہمارا علاقہ کیسا لگا؟ آپ کیا سمجھتے ہیں ہمیں ایسی توانائی کیسے حاصل ہو سکتی ہے جو ماحول کو آلودہ نہ کرے اور سستی بھی ہو؟ ایکو فرینڈلی ٹوارزم کے لیے کون سے اقدامات اٹھانے چاہیے؟ بارہ ہزار فٹ سے بلند چراگاہوں میں کون سے درخت مناسب ہوتے ہیں جو شدید سردی کا مقابلہ کر سکیں؟ آپ پھولوں کے حوالے سے کیا علم رکھتے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ
میرا دل کر رہا تھا کہ ہاتھ باندھ کر کہوں صاحب آپ یہ اچھے سوال غلط بندے سے پو چھ رہے ہیں، قبلہ ہم ابھی ا س تگ و دو میں ہیں کہ عقیدوں کی سولی چڑھتے انسان کو کیسے بچایا جائے۔ آپ پھولوں کا قصہ لے بیٹھے ہیں۔
راکاپوشی ویو پوائنٹ تک پہنچتے مجھے رات کے بارہ بج گئے۔04
میں نے راکا پوشی کو بارہا دیکھا ہے۔ لیکن اس رات کچھ انوکھا دیکھا۔ اگر کوئی مجھے آنکھیں بند کرنے کو کہے اور پوچھے کہ پوری زندگی میں پانچ مناظر ایسے بتاﺅ جو سب سے خوبصورت تھے تو راکاپوشی کو اس لمحے دیکھنا اس فہرست میں شامل ہو گا۔
جب کوسٹر روانہ ہو گئی تو ہر طرف خاموشی ہی خاموشی چھا گئی۔ میں نے سامنے دیکھا تو چاند کی بارہویں تاریخ میں راکاپوشی کی جھلمل کرتی برفیں دیکھیں۔ راکا پوشی سے آتے پانیوں کی خوفناک آواز تھی۔ ایک ہوٹل اونگھ رہا تھا باقی سو چکے تھے۔ اونگھتے ہوٹل کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ چائے کی درخواست کی۔ گو میری تربیت میں چائے آرڈر کی جاتی ہے لیکن ہنزہ نگر کے پے درپے چکروں نے مجھے چائے کی درخواست کرنا سکھا دیا۔ چائے پینے کے دوران میں نے ڈاکٹر احسن کو فون کیا جو تارڑ صاحب کے راکا پوشی مہم کے انتظامی انچارج تھے۔ ڈاکٹر احسن نے مجھے انتظار کرنے کا کہا اور بتایا کہ وہ مجھے لینے مناپن میں دران ریسٹ ہاﺅس سے نکل رہے ہیں اور آدھے گھنٹے تک راکاپوشی ویو پوائنٹ ہوں گے۔
میں نے کرسی اٹھائی اور ہوٹل کے بلب کی دائروی روشنی کی حدود سے باہر نکل گیا۔ میں تنہا سیاح تھا اور راکاپوشی سامنے تھا۔
چاند کی روشنی میں راکاپوشی روشن تھا۔ بادلوں کے ٹکڑے اس کے آس پاس گھوم رہے تھے۔ چاند کی روشنی اس قدر تھی کہ ان بادلوں کے پہاڑ پر پڑتے سایے صاف نظر آتے تھے۔ چاند کی روشنی برفوں سے منعکس ہو کر بادلوں کو دہرا خوبصور ت دکھا رہی تھی۔ بادل کے ٹکڑوں کو اوپر سے چاند کی روشنی پڑتی تھی اور نیچے سے راکاپوشی کی عظیم برفوں سے منعکس چاندنی کی جھلملاہٹ انہیں روشن کرتی تھی۔ یہ بندوبست بادلوں کو صحیح طور تین جہتی دکھا رہا تھا۔ راکاپوشی کے گلیشئیر سے آنے والے پانیوں کی پھوار منجمد کرنے کے لیے کافی تھی۔
میں بدستور بیٹھا رہا۔ مجھے اس دن دو باتیں سمجھ آئیں۔
روایت ہے کہ راکاپوشی کسی زمانے میں برفانی معبد رہا ہے۔ اس کی پوجا کی جاتی تھی۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اس کو معبد کا سٹیٹس کسی ایسی ہی غضب چاندنی کی رات حاصل ہوا ہو گا جب اس کے دامن میں شکر یا غم کی کیفیتوں سے چور کچھ بے بس لوگوں نے دیکھا ہو گا تو حسن کی تاب نہ لا کر سجدہ ریز ہوئے ہوں گے۔
دوسری بات یہ سمجھ آئی کہ ہمیشہ سنتے آئے ہیں کہ سیاح چاند کی چاندنی میں اس کو دیکھ کر زار وقطار روتے ہیں۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ رات کے وقت جب ہر طرف خاموشی کا راج ہوتا ہے، چوبیس ہزار فٹ سے بلند راکاپوشی چاندنی میں کیا منظر دکھاتی ہے۔
چاندنی میں مجھے راکاپوشی میں وہ مقام صاف نظر آ رہے تھے جہاں مشہور مہم جو ہفتوں مہینوں کے لیے پھنس جاتے ہیں۔ NW Spur نظر آتا تھا جو چوٹی کی جانب جانے کا دنیا بھر میں طویل ترین راستہ ہے۔ NUN’s Head سے کافی دیر ایک بادل چمٹا رہا اور پھر چھوڑ کر کسی اور طرف دوڑ لگا دی۔ راکاپوشی کی Secord peak کو آغوش میں لینے کے لیے کچھ بادلوں کی منڈلی روانہ تھی۔ راکاپوشی سمٹ دامن میں بادلوں کو دیکھتی تھی جیسے ان کو اپنے پاس آنے کا چیلنج دے رہی ہو۔ چند نوجوان سر پھرے بادل جو چیلنج قبول کر بیٹھتے تھے، summit تک پہنچتے پہنچتے ہوا ہو جاتے تھے۔
اچانک ایک گاڑی کی آواز سنائی دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ڈاکٹر احسن اپنی دلاآویز مسکراہٹ کے ساتھ نیچے اتر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر عاکف بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر احسن نے دور سے خوش آمدیدی قسم کا نعرہ بلند کیا۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے بتایا کہ تارڑ صاحب بہت پریشان رہے ہیں، پورا دن بار بار کہتے رہے کہ اب فون کرو شاید مل جائے۔ پوچھو کہاں پہنچا ہے۔ بار بار کہتے رہے، بس خیریت سے پہنچ جائے۔ ابھی رات کے ایک بجے بھی جا گ رہے ہیں۔ جلدی چلیں!