قسمت میں مری … چین سے جینا لکھ دے
قسمت میں مری … چین سے جینا لکھ دے …………. تحریر . کلثوم بلوچ
مشہور زمانہ قوال امجد صابری کو شہر کراچی میں چند نامعلوم افراد نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور یوں ان کی قسمت میں جینا تو نہیں البتہ مرنا لکھا گیا۔
شروع کے چند گھنٹے تو قاتل ہمیشہ ہی نامعلوم رہتے ہیں کیوںکہ کے کراچی کی روایت ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کیوں اور کس نے مارا ہے۔ امجد صابری کی بھی موت کے کچھ دیر بعد ہی طالبان کے کمانڈر قاری سیف الله محسود نے ذمےداری قبول کرلی۔
کیا اس کے بعد بھی آپ کو کوئی وجہ چاہیے کہ دن دیہاڑے شہر قائد میں ایک قوال کو کیوں ماردیا؟ نہ سیاسی وابستگی نہ کسی فرقے سے تعلق۔۔۔۔ لیکن ایک تعلق تھا اور وہ تھا اہل بیت سے محبت۔۔۔۔
سنہ 2014 میں امجد صابری نے پاکستان کے ایک پرائیویٹ چینل پر مارننگ شو میں ایک قوالی گائی تھی اور مذہب کے ٹھیکداروں کو یہ اتنا ناگوار گزرا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس دائر ہوگیا اور امجد صابری اور قوالی لکھنے والے دونوں افراد پر توہین رسالت کا نوٹس جاری ہوا۔
سندھ اور پنجاب وہ صوبے ہیں جہاں اسلام کی پہنچ صوفیوں کے ذریعے ہوئی اور آج بھی سال میں کئی عرس ہوتے ہین اور دھمال پڑتی ہے۔ یہ صرف عقیدت ہے، خدا کو چاہنے کی اپنی لگن اور روایت ہے۔ اس چاہت اور روایت کو اب جنونیت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
مزاروں پر، امام بارگاہوں پر، مسجدوں پر دھماکے ہوتے ہیں اور دہشت گرد یہ جواز دیتے ہیں کہ مرنے والے کافر تھے۔ ان دہشت گردوں کے تو خون منہ کو لگا ہے لیکن ایک اور بھی دہشت گرد ہیں جو میرے آپ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پربھی کئی بےگناہوں کا، عظیم ہستیوں کا خون لگا ہے۔
انہیں کہتے ہیں اپولوجسٹ یا حمایتی !
اگر مگر، ادھر ادھر، فلانا ڈھماکا تمام طرح کی دلیل لے کر میدان میں اترتے ہیں اور جہالت کے ہجوم میں خود کو نیوٹرل ثابت کر کے دہشت گردی کی حمایت کر دیں گے۔ اگر آپ کو بس سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر مار دیں، احمدی ہونے پر جلا دیں، سیاسی وابستگی پر ماروائے عدالت قتل کردیں تو بھی یہ خاموشی اختیار کرلیں گے اور کہیں گے کہ ہم سیاسی اور فرقہ وارانہ رنگ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ انسان کی تخلیقی سوچ میں وابستگی لازم ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلم اور مظلوم میں غیر جانبداری کا راستہ چن لے۔
حمایتی یا نیوٹرل لوگ ایسی دلیلیں اور تاویلیں دیں گے جیسے دہشت گرد اپنی بندوقیں صاف کر رہے تھے اور مقتول سامنے آ گئے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں زبان رکھنے والے گونگے ہوگئے ہیں اور طالبانی سوچ نے اپنے دہانے کھول لئے ہیں۔
امجد صابری قوال جیسی ہی ہستیاں تھیں جنہوں نے نہ صرف ملک بلکہ اسلام کا بھی نرم گوشہ دنیا کو دکھایا اور بتلایا کہ مذہب میں عقیدت ہی میں عظمت ہے۔
بدلے میں کیا ملا؟
پینتالیس سال کی عمر میں 5 گولیاں !
پاکستان جیسے ملک میں حکومت سے لے کر عام آدمی تک یہ اخلاقی ذمےداری ہے کہ وہ ظلم پر بولے ورنہ یہ وہ آگ ہے جس کے شعلے آپ کے دروازے ہی پر دہک رہے ہیں اور مستقبل میں آپ کا دروازہ جلنے کا امکان بھی موجود ہے۔