’’پا نی پیو پُن کے‘‘ تنویر خالد کی خوبصورت تحریر
’’پا نی پیو پُن کے‘‘
تنویر خالد
یہ تیر ہ جو ن 2016کی شام تھی وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پا شا پنجاب اسمبلی میں مو جو دہ صوبا ئی حکو مت کا چوتھا بجٹ پیش کر رہی تھیں ۔بجٹ تقریر کر تے ہو ئے جب وزیر خزانہ نے یہ شعر پڑھا کہ
امن مِلے تر ے بچوں کو اور ا نصاف مِلے
چا ندی جیسا دودھ ملے اور پا نی صاف مِلے
تو اس شعر میں صاف پا نی کے ذِکر نے مجھے بچپن کے زما نہ طالب علمی میں گو رنمنٹ ہا ئی اسکول کر وڑ لعل عیسن کے آٹھویں جماعت کے کلا س روم میں جا کھڑا کیا ۔جہاں زراعت ٹیچر میاں مر ید اکبر (مر حوم ) زراعت کے پیر یڈ میں بڑے خو بصورت انداز میں انتہا ئی فصا حت و بلا غت کے سا تھ زراعت کی اہمیت و افادیت پر لیکچر دے رہے تھے ۔انہوں نے لیکچر کے دوران ایک ضرب المثل کا حوالہ دیتے ہو ئے فرما یا کہ
’’بیج پاؤ چُن کے ،پا نی پیو پُن کے ‘‘
اور پھر اس ضر ب المثل کی گُتھیاں سلجھا نے لگے ۔وزیر خزانہ کی تقریر میں پیش کر دہ شعر کے دوسرے مصرے میں صاف پا نی کے ذِکر نے مجھے ایک ایسی ضرب المثل سے جاسُک کیا جو ایک آفا قی سچائی ہے ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ زراعت ابتدائے آفرینس سے انسا نی زندگی کی بقا کی ضا من ہے اور زراعت نے ابد تک قائم رہنا ہے ۔زراعت کا با لواسطہ اور بلا واسطہ تعلق پیدا وار اور انسا نو ں سے ہے اچھی پیداوا ر اور صحت مند نسل انسا نی کیلئے پا نی لا زم و ملزوم ہے ۔’’بیج پاؤ چُن کے ، پا نی پیوپُن کے ‘‘محض ایک ضر ب المثل نہیں بلکہ ایک مکمل سا ئنس ہے جس میں نہ صرف زرعی تر قی بلکہ انسا نی صحت کے بنیا دی ماخذ کو سمودیا گیا ہے ۔اور یہ حقیقت ہے کہ ضرب الامثال ایک دن میں تخلیق نہیں ہو تیں بلکہ ان ضرب المثل کی تخلیق اور مقبول عام ہو نے میں نسل انسا نی کا صدیو ں کی ریاضت پر مشتمل مشا ہد اور تجربہ شامل ہوتاہے ۔مذکو رہ ضرب المثل اس امر کا ادراک ہے کہ ’’صاف پا نی ‘‘کی ضرورت انسا نی صحت کیلئے سینکڑ وں ، ہز اروں سالوں سے مسلمہ ہے اسی لئے اس کی تلقین ہوتی آئی ہے ۔اور جیسے جیسے نسل انسا نی ارتقائی اور شعوری منا زل طے کرتی گئی صاف پا نی کی اہمیت بھی بڑھتی چلی گئی ۔عہد مو جو د میں جب دنیا کی آبا دی چھ ارب سے تجا وز ہو اچا ہتی ہے ’’صاف پانی ‘‘کی افا دیت میں گرانقدر اضا فہ ہو اہے بلکہ اب صاف پا نی کی بجا ئے سیف (safe)پا نی کی اصلا ح بھی استعما ل ہو نے لگی ہے ۔مو جو دہ دور میں صحت مند معا شرہ کی تشکیل اور صحت مند نسل کیلئے حکو متی سطح پر صاف /سیف پا نی کی فراہمی کیلئے مر بو ط کو ششیں بر ؤئے کار لا ئی جا رہی ہے ۔اور پنجاب میں صاف پا نی کی فراہمی کیلئے تین سو ارب روپے کی لا گت کا عظیم منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے ۔
بلا شبہ پا نی اورمٹی سے ہی زندگی معرضِ و جو د میں آئی ۔کا ئنا ت ایک خو بصورت اور مر بو ط نظا م کے تحت متحر ک ہے اور پا نی قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس کی تقسیم و تر سیل کا قدرتی نظام عقل انسا نی کو تخیر میں ڈال دیتا ہے ۔چھو ٹے چھوٹے ند ی نا لو ں سے بہتے پا نی کی کسی مقام پر با ہم مر بو ط ہو کر بڑی بڑی نہروں ، دریا ؤں اور سمندروں کی صورت میں شا ندار تشکیل ، آبی بخارات کی صورت میں اڑتے ہو ئے پا نی کا بلند مقام پر پہنچ کر کبھی با ر ش اور کبھی برف کی صورت میں مسلسل ایک آبی چکر کو بر قرار رکھنا اور پھر زیر زمین قدرت کا انمو ل ذخیر ہ کی صورت میں انسا نی ضرورت کے استعما ل کیلئے جمع ہو نا اور پھر کتا ب ہدا یت قرآن مجید فرقان الحمید میں ذات با ری تعالیٰ کا یہ فر ما ن کہ ’’ہم نے ہر شے کو پا نی سے پیدا کیا ‘‘اس امر کا غماز ہے کہ پا نی کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے ۔لیکن یہی پا نی اگر آلو دہ ہو تو انسا نی زندگی کیلئے خطرہ بن جا نا ہے اور انسا ن آلو دہ پا نی کے استعمال سے کا لر ہ،پیچش، اسہا ل ، یر قان ، کینسر ، شو گر ، بلڈ پر یشر، گردے، دل ، زچگی ، جلد کے امر اض ، دانتوں اور ہڈیوں کے امراض ، سا نس کی بیما ریوں ، دوران زچگی بچوں کی اموات ، مثانہ کے کیسز اور گلہڑجیسی بیما ریوں کا شکا ر ہو سکتا ہے ۔بیما ریا ں پا نی میں جرا ثیمی آلو دگی ، آرسینک ( سنکھیا ) ، فلو رائیڈ اور نا ئیٹر یٹ کی مو جو دگی کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔زہریلا صنفی فضلہ ،گھریلو گندہ پا نی اور فضلہ ، زرعی ادویا ت اور کھا دیں پا نی کو آلو دہ کر نے کے عوامل ہیں ۔مز ید برا ں قابل استعما ل پا نی کے ذخا ئر کل پا نی کے مقابلے میں انتہا ئی کم ہیں اور اگر ان تا زہ پا نی کے ذخا ئر کو صیح طر ح سے استعما ل نہ کیا جا ئے تو تا زہ پا نی کی قلت پیدا ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علما ئے عمرا نیات نے آئندہ جنگیں پا نی کے حصول کیلئے لڑے جا نے کی پیش گو ئی کی ہے ۔ان حا لات میں حکو مت /ریا ست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کیلئے صاف/سیف پا نی کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔اس سلسلہ میں ہر حکو مت نے اپنے عہداقتدار میں صا ف پا نی کی فراہمی پر توجہ مرکوز کی لیکن مو جو دہ حکو مت پنجاب نے عوام کو نہ صرف صاف بلکہ سیف پا نی کی فراہمی کیلئے جو انقلا بی منصوبہ تشکیل دیا ہے اور جس پر پنجاب میں عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے وہ حقیقتاًقابل ستا ئش ہے اور صحت مند معا شرہ کی تشکیل کے سلسلہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہبا ز شریف کے تر قیا تی ویژن کا عکاس ہے اور اس مثبت تعمیر ی اور عوام دوست کا وش کے یقیناًدور رس نتا ئج بر آمد ہو ں گے ۔
’’پنجاب صا ف پا نی پر وگرام ‘‘کا بنیا دی مقصد پنجاب میں نہ صرف انسا ن زندگی کی اس اہم ضرورت کی تکمیل کو یقینی بنا نا ہے بلکہ اس منصوبہ /پروگرام کے ذریعے غیر معیا ری پا نی کی وجہ سے پھیلنے والی بیما ریوں پر بھی قابو پا نا ہے ۔بلا شبہ پینے کا صاف پا نی زندگی کی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس پر ہر فرد کا حق ہے لیکن آج پنجاب کے شہروں اور دیہاتوں میں مقیم عوام کی بہت بڑی تعداد اس بنیا دی ضرورت سے محروم ہے ۔پنجاب میں صاف /سیف پانی مہیا کر نے کے اس عظیم منصوبہ کے تحت پہلے مر حلہ میں 121ارب روپے کی خطیر لاگت سے پنجاب کے دس اضلا ع کی پینتیس تحصیلوں میں تقریباً دوکروڑ 30لا کھ افراد سے زائد آبا دی کو پینے کے صاف /سیف پا نی کی سہو لت مہیا کی جا ئے گی ۔ان اضلا ع میں جنو بی پنجاب کے چھ اضلا ع ( رحیم یار خان ، لو دھراں ، ڈیرہ غا زی خان ، مظفر گڑھ ، بہا ولپوراور راجن پو ر ) کے علا وہ فیصل آبا د ، قصور، او کا ڑہ اور سا ہیوا ل کے اضلا ع شا مل ہیں جہا ں زیر زمین پا نی پینے کیلئے موزوں نہیں ہے صاف پا نی کے اس منصوبہ کیلئے ما لی سا ل2016-017کے بجٹ میں حکو مت پنجاب نے 30ارب روپے کی رقم مختص کی ہے ۔اس عظیم پروگرام کے تحت ایک پا ئلٹ پرا جیکٹ کے ذریعہ جنو بی پنجاب کی پا نچ تحصیلوں لودھراں ، خا نیوال ، حا صل پو ر ، دنیا پو راور منچن آبا د میں80سے زائد جدید تر ین واٹرفلٹریشن پلا نٹ کی تنصیب مکمل ہو چکی ہے ۔جن سے روزانہ تین لاکھ افراد کو عالمی معیا رکا پینے کا صاف /سیف پا نی حاصل ہو رہا ہے ۔’’پا نی پیو پُن کے ‘‘درحقیقت ایک ڈاکٹرا ئن(Doctrine)نظر یہ یا اصول ہے جو صاف پانی کے استعما ل کی رہنما ئی فراہم کر تا ہے ۔یہ ڈاکٹر ائن دوطرفہ ( ریا ستی و انفرادی ) احسا س ذمے داری کی نشا ندہی کر تا ہے بلا شبہ حکو مت پنجاب اس احسا س کا ادراک کر تے ہو ئے اپنی ریا ستی ذمے داریوں سے عہدہ برآء ہو نے کی مقدور بھرکو ششیں کر رہی ہے لیکن بحثیت شہر ی ہمیں بھی انفرادی اور اجتماعی طورپر اپنی ذمے داریاں بطریق احسن پو ری کر نیکی ضرورت ہے ۔ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر چا ہیے کہ حفظا ن صحت کے اصولو ں کے مطا بق صاف پا نی استعمال کو یقینی بنا ئیں ۔تا کہ زندگی بیماریوں ، دست بر د سے محفو ظ ہو سکے۔