حسنین جمال کی خوبصورت اور شاندار تحریر "مفتی عبدالقوی اور قندیل بلوچ”
مفتی عبدالقوی ایک جید عالم ہیں۔ ملتان میں ان کا اپنا مدرسہ ہے اور رویت ہلال کمیٹی کے رکن بھی رہے ہیں۔ تازہ ترین ویڈیو میں انہوں نے مشہور اداکارہ اور ماڈل قندیل بلوچ کو بتایا کہ وطن سے محبت ایمان کی علامت ہے۔ بہ حیثیت ملتانی ہونے کے ان کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ خاتون کے لیے دعا کریں اور دعا و نصیحت سے ان کی راہنمائی بھی کریں۔ انہوں نے قندیل بلوچ کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ان کے یہاں تشریف لائیں، روحانی معاملات ہوں یا دینی معاملات ہوں انہوں نے تعاون جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔
مفتی صاحب جب قندیل بلوچ سے ملنے گئے تو ان کے علم میں آیا کہ وہ بھی ملتان سے ہیں۔ بس وہیں سے انہیں ایسی مسرت ہوئی کہ انہوں نے عفیفہ قندیل میں ایمان کی رمق دریافت کی اور اس بنیاد پر وعظ و نصیحت کی عمارت استوار کرتے گئے۔ زمانہ بڑا خراب ہے صاحبو، پہلے دیواروں کے صرف کان ہوتے تھے اب تو آنکھیں بھی لگ گئی ہیں۔
موبائل ویڈیو ریکارڈنگ ایک ایسی وبا بن چکی ہے جو ہر منظر کی خوب صورتی ہڑپ کر جاتی ہے۔ آپ پہاڑی علاقوں میں گھوم رہے ہوں، بارش میں نہا رہے ہوں، برف باری میں گھوم رہے ہوں، بیٹے نے پہلا قدم اٹھایا ہو، بیٹی نے پہلی بار بابا کہا ہو، دوستوں نے سرپرائز پارٹی دی ہو، سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے، زلزلہ آ رہا ہو، آندھی طوفان کا موسم بن جائے یا آپ کے کسی پودے میں پہلا پھول کھلا ہو، آپ منظر سے نکل جاتے ہیں اور آنے والے وقت کے لیے ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔
بھئی اگر لمحہ موجود آپ نہیں تھام سکے تو ایسے مستقبل کا فائدہ کیا جو صرف موبائل ویڈیوز دیکھنے میں ضائع ہو جائے۔ بجائے اس کے کہ آپ پہاڑی راستوں سے لطف اندوز ہوں، سینری دیکھیں، بارش میں دور تک نہاتے چلے جائیں، برف باری میں بچوں کے ساتھ کھیلں اور آسمان سے اترتے روئی کے گالوں کا لطف محسوس کریں آپ ویڈیو بازی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اولاد کے پہلے قدم پر اس کو تھامنے کی بجائے موبائل اٹھا لینا بھی سارا لطف غارت کرنے والی بات ہے۔ اسی طرح کسی حادثے میں گرے ہوئے کو اٹھانا ہو یا زلزلے آندھی طوفان کے دوران محفوظ مقامات پر پہنچنا ہو، یہ سب ترجیحات جب دوسرے نمبر پر آ جائیں اور آپ کیمرے کی مدد سے اپنے حال کو ماضی بنا کر مسقبل میں دیکھنے کے لیے رکھ چھوڑیں تو سمجھ لیں آپ گئے کام سے۔
یہی سب قندیل بلوچ کے ساتھ بھی ہوا۔ بجائے مفتی صاحب کی باتوں سے اپنا ایمان مضبوط کرنے کے، بجائے ان سے کچھ تقوی و پرہیز گاری سیکھنے کے، بجائے ان سے ضروری مسائل اور ان کا حل جاننے کے، خاتون نے اپنا تمام وقت ویڈیو بازی میں بالکل ضائع کر دیا اور مفتی صاحب بھی بے چارے قندیل بلوچ کے وعدوں پر اعتبار کر کے خاموش بیٹھے رہے۔ بیچ میں انہوں نے کچھ درخواست بھی کی کہ بی بی ایسا ویسا کچھ نہ لگا دینا جس پر مس بلوچ نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں ایسی چیزیں لگاؤں گی ہی نہیں۔ اس بحث سے کسی کو ہرگز سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایسی چیزیں کیا تھیں۔ ہمیں یقین ہے وہ یہی ویڈیو تھی اور یہی تصاویر تھیں جو سوشل میڈیا کی زینت بنی گھر گھر گھوم رہیں ہیں۔
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے جب مفتی صاحب کراچی گئے تو انہوں نے بار بار فون کیے، اس وقت قندیل مصروف تھیں، بہرحال قسمت نے یہ دن دکھانا تھا، انہیں فراغت ہوئی اور انہوں نے مفتی صاحب سے ملاقات کر کے یہ مکمل قصہ بھی ویڈیو میں داغ دیا اور مفتی صاحب کے سکوت نے مہر تصدیق ثبت کر دی۔ کیوں، کیوں کہ ان کا مقصد نیک تھا اور وہ اپنی ذات میں مکمل پراعتماد تھے۔
درفنطنی، اشقلے اور شوشے، ان تین الفاظ کا اگر مجسم استعمال دیکھنا ہے تو قندیل بی بی کے سوشل میڈیا پیج کو دیکھیے یا مولانا کی دیگر ویڈیوز ملاحظہ کر لیجیے۔ اس سے پہلے بھی متنازعہ معاملات پر مولانا کافی کچھ فرما چکے ہیں یا ان کے نام سے زیر بحث رہا ہے اور یہی خوبی قندیل بی بی میں بھی نمایاں ہے۔ تو اس ویڈیو کو ہرگز سیریس نہ لیجیے۔ اس سے پہلے بھی کئی خواتین صرف دعوت کی وجہ سے شوبز چھوڑ کر نیک کاموں کی طرف راغب ہو گئیں ہو سکتا ہے اگلے رمضان شریف میں قندیل بھی آپ کو کسی پروگرام کی میزبانی کرتی نظر آ جائیں۔ رہے مولانا صاحب تو ان کا مقصد تو صرف نیکی کمانا تھا اب سامنے والا ویڈیو ہی بنا ڈالے اور ٹی وی چینلز کو بھیج دے تو ان بے چارے کا کیا قصور؟
ایک بات سمجھ نہیں آئی۔ قندیل صوفے کی ہتھی پر اتنی دیر بیٹھی ویڈیو اور تصاویر بناتی رہیں، مولانا کی جناح کیپ بھی اچک کر سر پر رکھ لی، ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کرتی جا رہی تھیں، مولانا نیک مقصد رکھنے اور پراعتماد ہونے کے باوجود کیا واقعی نہیں سمجھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ اور اگر سمجھ گئے تو یہ سوال پوچھنا بے سود ہے کہ ویڈیو لابی میں بنی تھی یا کسی کمرے میں۔