ممتاز کالم نگار جناب ظفر اللہ خان کی فکر انگیز تحریر :. ٹریکٹر ٹرالی
ٹریکٹر ٹرالی۔۔۔ تحریر ظفر اللہ خان
پدرسری معاشرے میں عورت ایک شے تصور ہوتی تھی۔ ہوتی تھی بھی چہ معنی دارد؟ ہے۔ اب بھی ایک شے ہی ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے کی تاریخ اٹھا لیجیے۔ ہر بازار کی تاریخ دیکھ لیجیے۔ عورت بکتی نظر آئے گی۔ وہ خریدی جاتی رہی ہے۔ بھنبھوڑی جاتی رہی ہے اور پھر بیچی جاتی رہی ہے۔ ستم صرف یہیں تک نہیں ہے۔ اس خریدی ہوئی جنس کے ساتھ مرد نے اپنی عزت بھی مشروط کر لی ہے۔ کائنات کی حقیقت ہے کہ تولید کا عمل کسی ایک جنس سے پورا نہیں ہوتا۔ تولید کے اس عمل کے لئے مرد کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے پسند کرے مگر عورت کو نہیں ہے۔ کہیں مذہب کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کہیں تہذیب کی آڑ لی جاتی ہے اور کہیں روایات کے کوہلو کا بیل سمجھ کر عورت کو کھونٹے سے باندھا جاتا ہے۔ پیدائش دونوں کی ایک جیسی۔ بھوک دونوں کو لگتی ہے۔ پیاس کی شدت ایک سی ہے۔ موت دونوں کو آتی ہے۔ دکھ کا احساس ایک سا ہے۔ مگر اپنی زندگی پر اختیار صرف مرد کو حاصل ہے۔ کیوں؟ کیونکہ حادثہ پیدائش کی بنیاد پر اس میں گوشت کا ایک لوتھڑا اضافی ہے اور بس۔ اس جسمانی ساخت کی تبدیلی کے بل بوتے پر مرد نے خود کو برتر سمجھ لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹی وی ، اخبار، رسالے اور دیوار پر ہر دوسرا اشتہار مردانہ کمزوری کا چسپاں ہوتا ہے۔
ہم جتنے بھی اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کریں، سچ یہی ہے۔ نرگیسیت کے شکار اس برتر اور معزز سماج کے ڈکشن پر غور کر لیجے۔ باپ رنڈوا ہو جائے تو بیٹا فخر سے باپ کے لئے رشتہ ڈھونڈتا ہے۔ ماں بیوہ ہو جائے تو بیٹے کی غیرت آڑے آجاتی ہے۔ جوان بھابھی بیوہ ہو جائے تو نکاح کو دس رشتہ دار تیار ملتے ہیں۔ بہن بیوہ ہو جائے تو گھر میں بٹھانا عزت سمجھا جاتا ہے۔ بھیا کی راج دلاری بہنا اگر سپنے دیکھنے لگے تو بھیا کی غیرت اس راج دلاری کو خون میں نہلا دیتا ہے۔ اپنے خون سے پلنے والی اولاد جب جوان ہو کر خواب دیکھنے لگے تو کہیں باپ اسے زندہ درگور کرتا ہے اور کہیں ماں اسے زندہ جلا دیتی ہے۔
ہم نے یہ راگ بہت الاپا کہ عورت کے حقوق۔ عورت کے حقوق۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ سماج میں اس کو دو چار شعبوں میں نوکری کے اہل سمجھا گیا اور بس۔ باقی اس کی اوقات یہی ہے کہ یا اس سے صابن شیمپو بکوایا جائے یا پھر نمونے کے طور پر اسمبلی میں بٹھا دیا جائے ورنہ ہے وہ ٹریکٹر کی ٹرالی۔
بے فکر رہیں۔ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسی پارلیمنٹ میں انہی لوگوں نے بے نظیر پر ایسا ہی کیچڑ اچھالا تھا۔ یہ مرادنہ اوقات ہے جو کہیں چھپ جاتی ہے اور کہیں ظاہر ہو جاتی ہے۔ ہماری ماوں، بیٹیوں، بہنوں کو ابھی انسان کا درجہ پانے میں بہت وقت لگے گا۔