ورکنگ وومن کے تلخ اوقات……………………. تحریر . انتساب زہرہ
ورکنگ وومن کے تلخ اوقات……………………. تحریر . انتساب زہرہ
“چھ بج گئے، وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ کتنے ہی گھنٹے فائلیں نمٹاتے گزر گئے آج تو کام لگتا ہے ختم ہی نہیں ہورہا۔ کہیں باس کوئی اور کام میرے سر نہ ڈال دیں شفٹ کی گاڑی جانے والی ہے میں تو اب نکلنے کی کروں”، یہ سوچ کر جلدی جلدی اس نے میز پر سے فائلیں سمیٹیں اور لیپ ٹاپ سے آخری ای میل بھیج کر باقی کام کل پر چھوڑے کہ کہیں گاڑی نہ نکل جائے ورنہ آج بھی رکشہ ٹیکسی کے لئے بھٹکنا پڑے گا۔ گاڑی تو مل گئی لیکن گھر پہنچتے پہنچتے ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ راستے میں اتنا ٹریفک تھا کہ کئی جگہ گاڑی رکی۔ بس بچوں کو امی کے گھر سے پک کرلوں۔ “اف! امی آج پھر صائم اتنی جلدی سو گیا ہے”۔ اس نے ننھے صائم کو کندھے سے لگاتے ہوئے کہا “جب میں آتی ہوں یہ سو چکا ہوتا ہے آپ اسے اتنی جلدی نہ سونے دیا کریں ناں!چلو زنیرہ باقی ہوم ورک گھر جا کر کرنا۔ ابھی گھر چلو پتہ نہیں آج تمہاری دادی کا موڈ کیسا ہو گا۔ اچھا امی میں چلتی ہوں، کل صبح مجھے ذرا جلدی جانا ہے۔ ان دونوں کو جلدی ڈراپ کروں گی آپ کے پاس” اور امی ہمیشہ کی طرح صرف یہ ہی کہہ سکیں کہ “اچھا بیٹا ٹھیک ہے لیکن کچھ دیر رک جاتیں میرے پاس” اور وہ “نہیں امی پھر کسی وقت آؤں گی ابھی ٹائم نہیں ہے” کا بہانہ بنا کر نکل گئی۔
چلو امی کا گھر قریب ہونے کا یہ تو فائدہ ہے، لیکن کبھی کبھی مجھے امی بہت تھکی تھکی لگتی ہیں شائد میرے بچے انہیں بہت تھکا دیتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ گھر میں داخل ہوئی ہی تھی کہ آواز آئی “بس موقع مل گیا کمرے میں جانے کا اب تھکن کا، بہانہ بنا کر آرام کرنے کی پڑے گی، ارے بھئی گھر داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے پہاڑ توڑ کر آتی ہو، کھانا بناؤ گی یا آج بھی بازار سے لیتی آئی ہو؟” ساس کی آواز آئی تو جیسے وہ ساری تھکن بھول کر کچن کی جانب چلی گئی۔ فروزن کباب فرائی کئے، کل کا بچا سالن رکھا تھا اور سلاد بنا کر روٹیاں پکا لیں۔ اف اتنی گرمی میں روٹیاں پکانے میں جان نکل جاتی ہے، لیکن کیا کریں میاں کو گھر کا کھانا پسند ہے۔ انہوں نے ملازمت کی اجازت ہی اس شرط پر دی تھی کہ کھانا گھر کا بنا ہوا ہی کھائیں گے۔ لیکن جب اسے دیر تک رکنا پڑ جاتا تھا تو مجبوراً کھانا بازار سے لینا پڑتا تھا۔ جس پر اسے اتنے طعنے سننے کو ملتے کہ ہر نوالہ حلق میں اٹک اٹک کر اترتا تھا۔ ابھی تو گھر سمیٹنا ہے، بچوں کا کمرا صاف کرنا ہے اور صبح کی تیاری بھی کرنی ہے۔ سب کاموں سے فارغ ہوتے ہوتے ایک بج گیا، بستر پر لیٹی تو سارے درد جاگ گئے۔ اسے یاد آیا جب زنیرہ نے چلنا شروع کیا تھا تو وہ ملازمت نہیں کر رہی تھی اس نے اپنے شوہر کو کتنا چڑایا تھا یہ کہہ کر کہ “آپ دفتر میں تھے جب زنیرہ قدم اٹھا کر میری جانب آئی” اور کل جب صائم پہلی بار چلا تو اس کی امی نے اسے یہ خبر دی، وہ محسوس کر رہی تھی کہ بچے اس سے زیادہ امی کی ماسی کے قریب ہوگئے ہیں۔ صائم اب ماسی کو ہی کبھی کبھی مما کہہ جاتا ہے۔ امی کا بھی بڑھاپا ہے وہ بچوں کے پیچھے بھاگ دوڑ نہیں کر سکتیں۔ بچوں کے سارے کام ماسی ہی تو کرتی ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ وہ کل زیادہ مطمئن تھی یا آج ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
یہ روز کا معمول تھا لیکن یہ سب اس نے اپنی خوشی سے قبول کیا تھا۔ اسے تو آزادی چاہئے تھی، وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتی تھی، اسے بوریت ہونے لگی تھی اس زندگی سے جس میں بیوی سارا دن گھرکے کام کر کے شام کو تیار ہوکر شوہر کا انتظار کرتی ہے کہ ایک مسکراہٹ اور اپنے ہاتھ کی بنی چائے سے شوہر کی ساری تھکن اتار سکے۔ بچوں کے کام، گھر کے کام اور پھر شوہر کا انتظار یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ اس نے اس دن کے لئے اتنی تعلیم حاصل کی تھی کہ گھر میں جھاڑو، پونچا کرے اور برتن دھوئے۔ یہ تو اس کی ڈگریوں کے ساتھ بہت ہی بڑی ناانصافی ہے، بھلا بچوں کو ہوم ورک کرانے ان کی تربیت اور پرورش کے لئے اس نے یونیورسٹی میں دھکے کھائے تھے؟ وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی سب سے بولڈ لڑکی تھی۔ کیا سوچیں گے لوگ میں نے تو اپنی ڈگریاں چولھے میں جھونک دیں۔ میں جو عورت کی آزادی کی سب سے بڑی حمایتی رہی کتنے سیمینار اٹینڈ کئے، تقاریر کیں، اپنے حقوق کے لئے نہ لڑ سکی تو فائدہ؟ میں خود کو ضائع نہیں ہونے دوں گی، بالآخر میاں کو اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے، لیکن وہ آج یہ سوچ رہی تھی کہ کیا اس کا یہ فیصلہ صحیح تھا؟
ہمارے معاشرے میں کبھی کبھار عورت کو آزادی کے نام پر اس کی مرضی کرنے کی اجازت تو دے دی جاتی ہے لیکن اسے وہ تمام سہولتیں میسر نہیں ہوتیں جن کے دم پر وہ آزادی کی جنگ جیت سکے۔ آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کو چکی کے دو پاٹوں میں پسنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو اس پر معاش کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے دوسری طرف اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ گھریلو ذمہ داریاں بھی بھر پور انداز میں نبھائے۔ گویا اسے دہری ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے۔ ایسے میں شوہرحضرات اپنا دامن صاف بچا کر نکل جاتے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت کے کاموں میں ہاتھ بٹانا اس کی مدد کرنا اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔ مرد کچن میں آئے تو عورت پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ بچے تو ویسے ہی صرف ماں کی ذمہ داری ہوتے ہیں انہیں نہلانا، کھلانا، سارے کام حتیٰ کہ اسکول کا ہوم ورک بھی ماں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ اس پر اگر شوہر کہیں خیال کر لے تو جورو کا غلام ہونے کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔ بچوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر عورت اپنا مستقبل تو محفوظ کر لیتی ہے لیکن ننھے بچوں کا حال اور مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ جنہیں قدم قدم پر ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھ سال سے کم عمر بچوں کا وہ وقت جو لالچ اور غرض کے بغیر ڈھیروں شرارتوں اور چھوٹی چھوٹی خوشیاں لئے ہوئے ہوتا ہے اس میں کتنے ہی پل ایسے ہوتے ہیں جو ملازمت پیشہ مائیں گنوا دیتی ہیں۔ جبکہ وہ وقت، لمس اور سکون جو ماں کی آغوش میں بچے کو ملتا ہے ان کے اعتماد کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے۔ ابتدائی چند سالوں میں اگر عورت اپنا مکمل وقت بچوں کو وقت دے تو اس کا دل مطمئن ہوتا ہے کیونکہ بچوں کی اچھی تعلیم اور تربیت کے لئے ماں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ ماں نئے دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی بہترین خطوط پر تربیت کر کے انہیں معاشرے کا اچھا شہری بنا سکتی ہے۔ اگر ملازمت کرنا عورت کی مجبوری ہے تو بات اور ہے ورنہ بچوں کے سمجھدار ہونے کے بعد بھی ماں چاہے تو باقاعدہ کسی ملازمت کا آغاز کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اب تو گھر سے کام کرنے کے بھی کئی آپشنز موجود ہیں جن پر غور کیا جاسکتا ہے۔