ہلکی مارپیٹ سے ہلکی غلاظت تک ……….. تحریر بنتَ نصیب خان
ہلکی مارپیٹ سے ہلکی غلاظت تک ……….. تحریر بنتِ نصیب خان
اوائل دور اسلام میں جب فقہی مذاہب یعنی حنفیہ، شافعیہ، جعفریہ وغیرہ ابھی مُدوّن نہیں ہوئے تھے اور مختلف شہروں جیسے مکّہ، مدینہ، بغداد اور کوفہ میں لوگ مذہبی مسائل میں رہنمائی کے لئے ہر شہر میں موجود کچھ بڑے فقہاء سے رائے لیتے تھے جیسے کہیں امام مالک کا سکّہ چلتا تو کہیں سفیان ثوری، تو کہیں شیخ حمّاد اور ان کے مشہور شاگرد امام ابوحنیفہ یا بعد کے ادوار میں ان کے شاگردوں وغیرہ سے لوگ رجوع کرتے تھے۔ ایسے میں بہت سے امور میں ان اصحاب میں رائے کا اختلاف بھی آتا جس پر ان کے متّبعین یعنی ماننے والوں میں بحث و تکرار بھی ہوتی اور کبھی کبھار ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اُلٹی سیدھی حرکات بھی کرتے تھے جس سے بعض اوقات بڑی مضحکہ خیز صورت حال بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ جیسے اگر کسی امام سے سوال ہوا کہ کپڑوں پر ناپاکی لگی ہو اور اس میں نماز پڑھ لی تو کیا اس میں نماز ادا ہوجائے گی تو جواب آتا کہ اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ ناپاکی کی نوعیت کیا ہے اور مقدار کتنی ہے جیسے اگر کپڑوں کے کسی حصے پر درہم کے سکّے ( دور حاظر میں پانچ روپے کا سکّہ تصوّر کرلیں) سے کم جگہ پر ناپاکی لگی ہے تو ان کپڑوں میں نماز ادا ہوجائے گی۔
اب جس امام نے یہ فتوٰی دیا اس کے مخالف گروہ کا کوئی شخص اپنے کپڑوں پر قصداً درہم کے سکّے سے کم کوئی غلاظت لگا کر مسجد میں نماز پڑھنے آجاتا اور غلاظت کی بدبو سے نمازیوں کا سر پھٹا جاتا۔ لوگ اعتراض کرتے تو وہ متعلّقہ امام کی ذکر کی ہوئی رعایت کا حوالہ دے دیتا تھا، جس سے کج بحثی اور مضحکہ خیز قسم کی موشگافیوں کا سلسلہ چل پڑتا۔
اس واقعاتی حوالے کی روشنی میں جب میں اسلامی نظریاتی کونسل کی میڈیا میں زیر بحث آنے والی آراء یا گاہے بگاہے سعودی مُفتیان کی طرف سے آنے والے نادر خیالات کو سُنتی ہوں تو ان میں بھی سنجیدہ مُباحثے، مسائل کی تنقیح سے زیادہ مضحکہ آرائی اور جگت بازی کا پہلو زیادہ غالب نظر آتا ہے۔ جیسے کہ عورتوں پر ہاتھ اُٹھانے کے حوالے سے زیر بحث آنے والا اسلامی نظریاتی کونسل کا مُسوّدہ ہے جو کہ سندھ اور پنجاب میں عورتوں کے خلاف تشدّد کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی کے جواب کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ جس میں بیویوں پر ہاتھ اُٹھانے کے حوالے سے شرعی حد بندی کو باقاعدہ ایک قانون کے طور پر شوہروں کا حق قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نمازی اگر درہم کے سکّے سے کم مقدار کی گندگی اپنے کپڑوں پر لگا کر مسجد آئیں تو اسے ان کا حق مان لئے جانے پر اصرار کیا جائے بلکہ اسے آداب مسجد میں داخل کر دیا جائے۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ یہاں اس معاملے کو مذہبی حوالے سے ڈسکس کرنے کا مقصد مذہبی طبقے کی کوتاہ نظری کی نشاندہی ہے نہ کہ کسی طور پر عورتوں پر تشدد کو کسی بھی درجے میں سند جواز بخشنا، جس کی موجودہ دور میں قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
اسی معاملے کو اگر دوسری طرح سے دیکھا جائے تو مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا وہ طرز عمل یاد آرہا ہے جب انہیں زمانے کی خرابی کے عنوان سے اپنی بیوی کے مسجد میں جاکر نماز پڑھنے پر اعتراض ہوا اور منع کرنے کے لئے اُن کو کوئی فقہی جواز نہ ملا تو انہوں نے بیوی کی مسجد سے واپسی کے وقت گلی میں بیٹھ کر ان پر آوازے کسے جس سے گبھرا کر انہوں نے ‘زمانہ وہ نہیں رہا’ والی اپنے شوہر کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے باجماعت نماز کے لئے مسجد جانا ترک کردیا۔ تو اگر زمانہ بدلنے کا تاثر دے کر وہ پیغمبر کے زمانے کی سُنّت یعنی باجماعت نماز کی ادائیگی سے دستبردار ہوگئیں تو آپ اس عمل کی ستائش کس بنا پر کرسکتے ہیں اور بعد کے ادوار میں اس تبدیلی کو قانون سازی کی بنیاد کیسے قرار دے سکتے ہیں۔
پھر آج کے دور میں جو مذہبی تعبیر کی رُو سے کسی طرح ابن عمر کے دور سے بہتر نہیں ہوسکتا آپ اگر عورتوں کو نماز کے لئے مسجد آنے سے روکتے ہیں لیکن انہی عورتوں کی لڑکیوں کے مدارس کے مالی منفعت سے بھرپور معاملے سے خود کی وابستگی کی بنا پر روزانہ گھر سے نکلنے بلکہ مدارس میں قیام تک کی بھی اجازت دیتے ہیں بلکہ اگر کسی مدرسے میں اس حوالے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ نمودار ہو (جیسے کہ اورنگی ٹاؤن کا واقعہ جو ایک نامی گرامی مدرسہ ہے) تو علما کی ناک کے نیچے قائم وفاق المدارس کے ادارے نے نہ صرف اس معاملے کو دبایا بلکہ سیاسی طور پر بارسوخ علماء کے ذریعے طالبات پر دست درازی کے لئے مشہور مدرسے کے نگران کو قانونی کارروائی سے بھی بچایا اور اسے نشان عبرت نہیں بننے دیا۔ اگلی مثال اربوں روپے کے مالیاتی فراڈ میں ملوّث ایک مدرسے کی انتظامیہ اور ان سے جڑے سینکڑوں علماء کے ہاتھوں لوگوں کا جو حال ہوا اس پر کوئی لفظ کبھی آپ کی زبان پر کیوں نہیں آتا۔
تو جناب آپ حضرات کا طرز عمل، خواتین کے حوالے سے مذہبی قوانین کے ایک خاص ورژن پر اصرار، اس حوالے سے حالات و زمانے کی کسی قسم کی رعایت سے انکار اگر کسی رجحان کا اظہار ہے تو اسے عورت دشمنی سے کم بہرطور نہیں قرار دیا جاسکتا۔ جو کسی مذہبی قانون کے بجائے روایتی قبائلی نظاموں کے جبر کا آئینہ دار ہے۔