سماجیات

میرا قاتل مرہم مرہم دریا دریا ساحل ساحل.. تحریر صائمہ منیر

میرا قاتل مرہم مرہم دریا دریا ساحل ساحل…… تحریر صائمہ منیر
کل پہلی مرتبہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عورت ہونے پر شکر ادا کیا کہ میں عورت ہوں، مخنث نہیں۔ کیا ہوا جو سال 2014 میں 1610 عورتیں قتل ہوئیں یا 931 عورتوں نے خودکشی کی یا 713 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں مگر کسی حادثے کی صورت میں ڈاکٹر میری جنس کی وجہ سے علاج میں تاخیر نہیں کریں گے۔ کیا ہوا اگر 30,000 عورتیں زچگی کے دوران طبی سہولیات نہ ملنے سے مر جاتی ہیں کم ازکم ان کا جنازہ تو عزت سے پڑھایا جاتا ہے۔ نہیں تو کیا ہوا اگر کاری ہونے والی عورتوں کا جنازہ نہیں پڑھایا جاتا کم از کم ایک وار میں ان کا خاتمہ تو ہوجاتا ہے اور کیا ہوا اگر انہیں سسکا سسکا کر بھی مارا جاتا ہے تو کم از کم کوئی تو انہیں رونے والا ہوتا ہے۔ کوئی ماں یا بہن اور اگر سماجی دباو میں آ کے وہ بھی اس کا حصہ بن جاتی ہیں تو کم ازکم ماں کی گود میں کبھی کھیلی تو ہو گی نا اور کیا ہوا جو اسے غذا کم ملی ہوگی، سر پر چھت تو تھی نا اور کیا ہوا اگر چھت بھی نہیں تھی تو کوئی دارالامان تو ہوگا نا۔
مخنث ہوتی تو کیا ہوتا؟ دارالامان بھی نہ جا سکتی۔ اور میرے ساتھ وہ ہوتا جو علیشہ کے ساتھ ہوا۔ مجھے گولیاں ماری جاتیں اور میرے سارے ساتھی جو ماں جائے تو نہں معاشرہ ٹھکرائے ضرور ہیں اور یہی قدر مشترک ہمیں جوڑے رکھتی ہے مجھے ہسپتال لے جاتے اور میرے زخموں سے خون بہہ رہا ہوتا اور شہر کے سب سے بڑے سہپتال کے ڈاکٹر اس بات پر بحث کرتے کہ مجھے زنانہ وارڈ میں رکھا جائے کہ مردانہ وارڈ میں تو مجھے اس وقت کیا محسوس ہوتا۔ اور اس وقت کیسا محسوس ہوتا جب بالآخر مجھے زنانہ وارڈ میں ایک پارٹیشن لگا کر داخل کیا جاتا اور مریض عورتیں اور ان کے گھر والے احتجاج کرتے کہ زنانہ وارڈ میں ہیجڑوں کو کیوں رکھا گیا ہے۔ اور کیا ہوتا جب اگلے دن 43 درجہ حرارت میں میرا زخموں سے چور جسم صبح 9:30 سے رات 10 بجے تک ایک درخت کے سائے تلے پڑا ہوتا کہ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ جنس کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی دینا خدا بھول گیا تھا ورنہ میرے معاشرہ ٹھکرائے ساتھی مجھے یقیناً پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک میں لے جاتے۔ اور کیا ہوتا جب مجھے اس دوران پتہ چلتا کہ میں زخموں سے نہں بلکہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے بارود کا زہر جسم میں پھیلنے سے موت کے منہ میں جا رہی ہوں۔

ایسے میں شاید میں اپنی کراچی میں رہنے والی اپنی اس غریب بہن کے بارے میں ضرور سوچتی جو دنیا میں میرا واحد خون کا رشتہ ہے اور جس کی مالی مدد کرنا میری زندگی کا حصہ تھا۔ کہ کیا وہ میرے اس اہم دن پر میرے ساتھ مجھے رخصت کرنے آ سکتی ہےاور پھر خود ہی اپنی اس سوچ پر نقاہت سے بھرپور قہقہ لگاتی کہ اس جنس زدہ معاشرے میں جہاں میرے والدین مجھے نہیں قبل کر سکے وہاں میرا بہنوئی میری بہن کو اس بات کی اجازت کیسے دیتا کہ وہ آج کے دن میں میرے پاس ہوتی ہاں نوٹ کی بات دوسری ہے اس پر قائد اعظم کی تصویر میں صرف اوپر کا دھڑ نظر آتا ہے اس لئے وہ قابل قبول ہے مگر میں نہیں۔ مجھے تو میرے معاشرہ ٹھکرائے میرے ساتھی ہی میری منزل تک چھوڑ کے آئیں گے۔ اور میں یہ بھی سوچتی کہ کیا واقعی کوئی روز محشر ہوگا۔ حساب کا دن ہوگا تو خدا میرا حساب کس سے لے گا؟ میرے والدین سے؟ معاشرے سے؟ اس گروہ سے جس نے مجھے گولیاں ماری؟ ان ڈاکٹروں سے جنہیں میری جنس کی بنیاد پر علاج کرنا تھا؟ وارڈ کے ان لوگوں سے جنہوں نے میرے داخل ہونے پر اشو بنایا؟ میرے اپنے ساتھی جن کے پاس پیسے نہیں تھے؟ وہ وزیر اعلی جس نے ہم ہیجڑوں سے ملنے سے اس لئے انکار کیا تھا کہ ہیجڑوں سے ملنا نامناسب ہے یا خدا اپنے آپ سے حساب لے گا کہ اس نے ایسا کیوں کیا اور یا پھر روز حساب بھی ہم تیسری قطار میں کھڑے ہو کر کسی اور روز حساب کا انتطار کریں گے؟

Back to top button