عورت۔۔۔ شارع عام نہیں ہے………….. تحریر . کلثوم بانو
عورت۔۔۔ شارع عام نہیں ہے………….. تحریر . کلثوم بانو
برصغیر میں ویسے تو عورت نے انفرادی طور پر بڑی ترقی کرلی ہے لیکن افسوس بنیادی طور پر وہ اب بھی اپنے دفاع میں لڑ رہی ہے۔ اب پڑھنے والے کہیں گے بی بی صاف صاف کہو بلکہ فرق بیان کرو۔
تو جناب مدعا کچھ یوں ہے کہ آپ نے عورت کے وجود کو وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جگہ دے دی۔ بصورت ماں، بہن، بیٹی، بہو، بیوی، وغیرہ وغیرہ لیکن بنیادی طور پر اس کو صرف عورت بلکہ انسان کا درجہ دینے سے قاصر رہے اور اس کو اپنی ضروریات کے دائرے میں باندھ کر رکھا۔ کسی کے لئے وہ بچے پیدا کرتی رہے، تو کہیں چولھا چکّی میں الجھی رہے۔ غرض اس کی بنیادی لگن کو اس کے وجود سے الگ کردو۔
معاشرہ پڑھ لکھ گیا ہے کچھ سمجھ بوجھ بھی آگئی ہے اس لئے اکثر اوقات ہم سن لیتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں، بہنوں،بیویوں کو ان کے بنیادی حقوق سے آگاہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حقوق بھی پورے کر رہے ہیں۔ مگر یہ لوگ معاشرے کا شاید سواں حصّہ ہوں گے اور ان کو معاشرے کی اکثریت نہیں مانتی بلکہ وقتاً فوقتاً غیرت کی گھٹی پلانے کی کوشش کرتی ہے۔
“لڑکی کو باہر پڑھنے بھیج دیا؟ ارے مت ماری گی ہے کیا؟”
“اے اتنا پڑھا لکھا کر کیا کرنا ہے۔ آخر کو تو گھر ہی سنبھالنا ہے نا۔”
“لڑکی اتنی دیر سے دفتر سے آتی ہے؟ دیکھ لینا دفتر کے نام پر کوئی اور کام نہ ہورہا ہو۔”
“تمہارا تو اپنی بیوی پر کوئی زور ہی نہیں چلتا۔ ذرا لگام ڈال کر رکھو میاں۔”
اب کوئی زمانے سے پوچھے بیوی ہے یا گھوڑا؟ یا صحیفوں میں لکھا ہے کہ گھر سنبھالنا صرف اور صرف زنانہ ذمےداری ہے؟
ہمارے معاشرے میں ماشااللہ لڑکیوں کی تربیت پر اتنا دھیان رکھا جاتا ہے کہ لڑکوں کی تربیت کرنا والدین بھول جاتے ہیں۔ جب کہ اصل مدعا تو یہ ہے کہ مرد حضرات کو بھی تعلیم و تربیت دونوں کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کے آپ لڑکی کو یہ سکھائیں کہ دوپٹہ سلیقے سے اوڑھو، پہلے لڑکے کو سکھائیں کہ بیٹا دوپٹہ ہو یا نہ ہو تم اپنی نظر اوپر یا نیچے ہی رکھنا۔۔۔۔۔۔۔کہیں بیچ میں نہ بھٹکا دینا۔
آپ میں سے کتنے ماں باپ ہوں گے جنہوں نے کہا ہوگا کہ چہرہ گردن کے اوپر ہے، نیچے نہیں ؟ کوئی بھی نہیں ہوگا ایسا کیوںکہ یہ تو خطّے کی روایت ہے کہ عورت ہی غلط ہے، فتنہ ہے، فساد ہے، شیطان کی نانی ہے۔۔۔۔۔نانا کہہ دیتے لیکن نہیں محاورے میں بھی نہ بخشا۔
مسئلہ پھر وہیں کا وہیں! عورت، عورت تو ہے مگر ساتھ میں انسان بھی ہے۔ کوئی بے جان چیز نہیں جو بس ضرورت ہو اور آپ کی محکوم بھی۔ میں نے طالب علمی کے زمانے میں ایک جملہ سنا تھا جو کچھ یوں تھا، “مرد اگر 100 عورتوں کے ساتھ بھی سوجائے تو فرق نہیں۔”
یہ ہے ہماری تربیت جو لڑکوں کو سکھاتی ہے کہ عورت صرف ساتھ سونے کی شے ہے، اور یہ کہ تم پر ہر گناہ معاف ہے کیوںکہ تم مرد ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکی یا عورت اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرے، حق کے لئے کھڑی ہو، یا اپنے بنیادی فیصلے خود لینا چاہے تو اس کو تہمتوں سے نوازا جاتا ہے۔
“باغی ہے۔”
“ہاتھ سے نکل گئی۔”
اس کے علاوہ جو کہا جاتا ہے اسے کیا لکھنا۔ طلاق ہوتی ہے تو کہتے ہیں لڑکی کا قصور ہوگا، لڑکی خلع لے تو بھی اس کا جواز اس کے سر ڈال دیں گے۔ ریپ ہوگا تو بھی لڑکی میں ہی کھوٹ ہوگا جی۔۔۔۔۔کپڑے ایسے ہوں گے، لائن دی ہوگی، کردار ہی خراب تھا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ویشیا کا ریپ ہوجائے تو وہ ریپ کے کھاتے میں ہی نہیں آتا، پولیس کچہری تو دور کی بات ہے۔ کیوںکہ وہ تو ویشیا تھی، جسم بیچتی تھی تو وہ انکار کیسے کرسکتی ہے۔ مرد کا انکار، انکار ہے لیکن عورت کا انکار اس کا نخرہ ہے یا مرد کی توہین۔
یہی وجہ ہے کے جب کوئی لڑکی گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو اس کو جواز، جواب، اور جدوجہد سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشرے کی خصلت یہ ہے کہ آپ کی بہن، بیٹی، بیوی، ماں اگر گھر سے باہر نکلی ہے تو بس اب وہ “دستیاب” ہے کیوںکہ یہ وہی قوم ہے جو اپنی عورتوں کو ایسے لپیٹ کر رکھتے ہیں جیسے دکاندار شیشے کا برتن اخبار میں لپیٹ میں رکھتا ہے۔
اس دور کے مرد اور عورت یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عورت اگر مضبوط ہوگی، پڑھی لکھی ہوگی، تو ایک نسل کا مجموعی فائدہ ہو گا۔ آپ کو مغالطہ ہے کہ دروازے سے باہر قدم رکھنے والی ہر بچی، لڑکی اور عورت بس آپ کے دروازے میں داخل ہونے لئے نکلی ہے۔
نہیں صاحب! وہ اپنا مقام بنانے نکلی ہے، اپنا وجود ڈھونڈنے نکلی ہے۔ وہ چیز نہیں ہے جس کی آپ نے قیمت لگا دی اور کبھی تو بنا قیمت کے ہی بروئے استعمال لے آئے۔
وجود زن سے کائنات میں بھرنے والے رنگ کو تو سمجھ گئے ہوں گے آپ شاید، لیکن وجود کو نہیں سمجھ سکے۔