سماجیات

” باپ بنو گے ؟؟ ‘ ٍفہد خان شیروانی کی تحریر

باپ بنو گے
تحریر:فہد خان شیروانی
کل کو روٹی کی تمنا لئے سوئے بھوکے
پھر غلط فہمی کے خوابوں میں ہیں کھوئے بھوکے
میرے مالک تو غریبوں کو بھی اتنا دے دے
کوئی دنیا میں کہے نہ ان کو اوئے۔۔۔۔۔۔بھو کے
بڑے طویل عرصے سے میری روٹین ہے کہ صبح کی نماز کے بعد بلا ناغہ سیر کرنے کے لئے گھر سے کچھ دور واقع ایک چھوٹے مگرخوبصور ت پارک میں جایا کر تا ہوں۔ایک صبح میں نے روٹین کے مطابق سیر کے لئے پارک کا رُخ کیا ابھی بمشکل آدھا راستہ ہی طے کیا ہو گا کہ ایک لڑکے نے جس کی عمر تقریبا 12سال کے لگ بھگ ہو گی مجھے روکا اور کہنے لگا ’’سر! ایک منٹ رکیے،پلیزمیری بات سن لیجئے‘‘۔ میں رُک گیا اور بچے کو پہچاننے کی کوشش کر نے لگا مگر ناکام رہا۔میں نے اس لڑکے سے پوچھا’’بتاؤ کیا بات ہے‘‘۔’’سر!میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ وعدہ کریں کہ ناراض نہیں ہوں گے‘‘بچے نے پرُ امید لہجے میں کہا۔’’ پو چھو بیٹا میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگا آخر کیا بات ہے جو تم اتنی تمہید باندھ رہے ہو‘‘۔ میں نے کچھ حیران و پریشان ہوتے ہوئے کہا۔اوہ ! میں سمجھ گیا میں نے جیب میں ہاتھ ڈالااور پانچ کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا لیکن اس نے نہ پکڑا میں سمجھا کم ہیں میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا پانچ روپے اور نکالے کل ملا کر دس روپے اس کی جانب بڑھائے لیکن اس نے قبول نہ کےئے بلکہ رونا شروع کر دیا۔میں گھبرا گیااور اسے چپ کراتے ہوئے کہا ’’اگر کم ہیں تو جتنے ضرورت ہیں اتنے مانگ لو لیکن یہ رونا تو بند کرو‘‘۔کچھ دیر کے بعد لڑکے نے رونا بند کیا اور ہاتھ جوڑکر کہنے لگا’’ میں بھکاری نہیں ہوں اور نہ آپ سے روپے مانگنے کے لئے آپ کوروکا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہم پانچ بہن بھائی ہیں ہمارے امی ابو ایک کار ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گئے ہیں۔ہمارے ابو کے کاروبار پر لالچی رشتہ داروں نے قبضہ کر لیا ہے اور اب ان کی نظر ہمارے گھر پر لگی ہوئی ہے وہ ہمیں گھر سے نکال کر اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ہم جو دو وقت کی روٹی بمشکل کھا پا تے ہیں ان کے ساتھ لڑائی نہیں کر سکتے۔رشتہ داروں کے لڑکے میری بہنوں کو تنگ کرتے ہیں انہیں گندی نظر سے دیکھتے ہیں اور بے ہودہ باتیں کر تے ہیں محلے دار بھی ان بدمعاشوں کا ساتھ دیتے ہیں ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے سب ہمارے مخالف بن چکے ہیں۔میں چھوٹا ہوں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتامجھے ڈر ہے کہ میری بہنیں خود کشی نہ کر لیں اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا توسر ہمارا خاندان برباد ہو جائے گا‘‘۔’’پھر اس سلسلے میں ‘ میں تمھاری کیا مدد کر سکتا ہوں میرا ٹائم ضائع مت کرو۔ اچھا یہ لو پچاس روپے رکھ لو‘‘ میں نے نوٹ اس کی طرف بڑھاکر اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔میری بات سن کر لڑکا پھر سے رونے لگا اور تڑپ کر کہنے لگا’’مجھے آپ سے پیسوں کی کوئی مدد نہیں چاہیے‘‘۔’’اور کیا چاہتے ہو جلدی بکو‘میں بہت مصروف بندہ ہوں میرے پاس تمھاری کہانیاں سننے کا ٹائم نہیں ہے‘‘ میں نے تلملاتے ہوئے کہا۔’’سر!کیا آپ ہمارے باپ بنو گے۔۔۔۔۔۔؟لڑکے نے معصومیت بھرے لہجے میں پوچھا۔اس کی بات سن کر میں ششدر رہ گیا غصے سے میرا خون کھولنے لگااور دماغ کی رگیں چٹخنے لگیں اس کی بات نے میرا دماغ ماؤف کر دیا تھا۔میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ لڑکے پر گھونسوں ،لاتوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی۔اس کی ہمت کیسے ہوئی میرے بچوں کے برابر آنے کی۔ کہاں وہ اور کہاں میرے بچے۔لڑکے نے اپنے بچاؤ کی کوئی کوشش نہ کی وہ آنکھوں میں حیرانگی لئے مجھ سے مار کھاتا رہا اس کی ویران آنکھیں سوال کر رہیں تھیں کہ اسے کیوں مارا جا رہا ہے۔جب مار مار کر تھک گیا تو میں نے اس لڑکے کو زور سے دھکا دیا وہ دور جا گرا۔ میں نے حقارت ونفرت سے اس کے طرف تھوک دیااور اپنے غصہ ودماغ کر ٹھنڈا کر نے کے کرشش کرنے لگا۔سیر کا ارادہ ترک کرکے میں نے واپس گھر کے طرف رخ کیا ابھی کچھ ہی قدم چلا ہوں گا کہ پیچھے سے لڑکے کی رُندھی ہوئی آواز آئی’’سر!آخر میرا کیا قصور ہے جو آپ نے مجھے مارا۔کیا یہ واقعات جو میرے ساتھ میرے اپنوں نے کئے یا پھر میں نے پناہ میں آنے کی درخواست کی اس لئے ۔ ڈریں۔۔۔سر ڈریں اس وقت سے جب خدانخواستہ آپ کے بچوں کے ساتھ یہ سب کچھ دہرایا جائے گااور آپ جیسے اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو آپ نے میرے ساتھ کیا‘‘۔ اس کے یہ بات سن کر میرا خون کھول اٹھا، دماغ میں لاوہ پکنے لگا۔اس کی جرئات کیسے ہوئی میرے’’معصوم اور پیارے بچوں‘‘ کے متعلق ایسے بات سوچنے کی۔میں دوبارہ لڑ کے کی طرف بڑھا جو زمین پر بیٹھا چلا رہا تھا ’’اگر آپ ہمارے باپ (سرپرست) بن جائیں گے تو ہم پر ظلم نہیں ہو گاہمارا خاندان محفوظ ہو جائے گا‘‘۔میں نے زمین پر پڑی درخت کے ٹوٹی ہوئی شاخ اٹھائی اور لڑکے پر مغلظات کے ساتھ اس چھڑی کی بارش کر دی۔مجھے ہوش اس وقت آیا جب لڑکا مار کھا کھا کر بے ہوش ہو چکا تھا۔بیہوشی کی حالت میں بھی اس کے منہ سے فقرہ برآمد ہو رہا تھا ’’باپ بنو گے۔۔۔ہمارے باپ بنو گے۔۔۔‘‘۔لڑکے کے منہ اور ناک سے خون پانی کی مانند بہہ رہا تھا۔میں نے اس کی جان چھوڑی اور گھر آگیا۔گھر آکر دفتر فون کر دیا کہ آج میں نہیں آسکوں گا۔اس کے بعد پانی کے تین چار گلاس پی کر خود کو ٹھنڈا کر نے کی کو شش کی۔ بچے سکول جا چکے تھے۔ بیگم ملازمہ سے گھر کی صفائی کروارہیں تھیں۔ میں کمرے میں آکر لیٹ گیا۔کچھ دیر بعد جب دماغ ٹھنڈا ہوا اور میں ریلیکس ہواتو لڑکے کی باتیں خود بخود میرے ذہن میں آنے لگیں میں نے ان سے چھٹکارا پانے کی بھرپور کو شش کی لیکن وہ دماغ کے ساتھ چپک کر رہ گئیں۔آخر تھک ہار کر لڑکے کی باتوں پر غور کرنا شروع کیاتو میرے ذہن کے دریچے خود بخود وا ہوتے چلے گئے۔میرے دماغ میں بے پناہ خود ساختہ باتیں گونجنے لگیں جیسے مختلف آوازوں میں بہت سے لوگ چلاتے ہوئے کہہ رہے ہوں جن میں کشمیر کی مظلوم و محکوم عوام۔۔۔افغانستان کے بے سروساماں مجاہدین ۔۔۔دنیا کی سب سے گندی ترین غیر انسانی جیل گوانتاناموبے میں مقید مظلوم مسلمان(جن کا اصل جر م صرف مسلمان ہوناہے) فلسطین کی خستہ حال مسلمان قوم۔۔۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان۔۔۔ محنت مزدوری کرتے معصوم چھوٹے بچے۔۔۔خون پسینے سے زمین کو سینچنے والے کسان۔۔۔ ہسپتالوں میں بے یارومددگار غریب،مجبو ر مریض۔۔۔کالاباغ ڈیم و دیگر ترقیاتی منصوبے ۔۔۔ بے سہارا اور جہیز نہ ہونے کے باعث گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہوتی مظلوم ومعصوم بیٹیاں۔۔۔سکوں کی خاطر بکنے والے ضمیر۔۔۔مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہونے والے مسلمان ۔۔۔دولت کی چمک سے اندھے ہو کر لکھنے والے قلم۔۔۔کرسی کے لالچی حکمرانوں کی بھینٹ چڑھنے والی عوام۔۔۔پیسے اور ڈنڈے کے زور پر بکنے والا قانون ۔۔۔سب مل کر ایک ہی شور مچا نے لگے۔۔۔باپ بنو گے۔۔۔باپ بنو گے۔۔۔باپ بنو گے۔۔۔!!!!!

Back to top button