غیرت کے نام پر…. ’میرے قاتل، میرے دلدار‘ ( تحریر مہوش بدر )
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ کسی نے کہا، ‘ارے آپ کے بلاگ پڑھے ہیں میں نے۔ آپ کو ایک آدھ دفعہ ٹویٹر پہ بھی دیکھا ہے۔ آپ میں بہت حوصلہ ہے۔’ مجھے پہلے وحشت ہوئی۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کے پوچھا: ‘کیوں؟’، کہنے لگیں ‘اتنی گالیاں کیسے برداشت کر لیتی ہیں؟’۔ سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ تعریف کی گئی تھی یا بے عزتی۔ آج کل پتہ نہیں چلتا۔ کہیں غیرت کے ٹھیکیدار زبردستی خاموش کر دینے کو بھی آپ ہی کی بھلائی کہہ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ‘ہلکے پھلکے’ تشدد کو صحیح گردانتے ہیں۔ کبھی عورت کے سر جھکانے میں ہی اس کی آزادی سمجھتے ہیں۔ معاملہ بہت گڈ مڈ ہو چکا ہے۔ ان حالات میں اپنی سمت درست رکھنا بھی ایک محاذ سے کم نہیں۔ گالیاں تو گالیاں، یہ جو ‘اپنے’ بن کے درس دیتے ہیں، ان سے بھی کبھی کبھی عجیب سا خوف آتا ہے۔ پھر سوچتے ہیں – یہ تو اپنے دوست ہیں۔ ان سے بھی بھاگنا پڑا تو کہاں جائیں گے؟
ہماری ایک دوست نے ہم سے قطع تعلق اس بنیاد پہ کیا کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ میں مذہبی پیشواؤں کی شان میں اکثر تنقید و سوالات کی بوچھاڑ کر دیتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا “اب ایسے تو دوستی نہیں چل سکتی نا!” ہم گیارہ سال سے دوست رہے۔ ایک دم ہی ان کو یہ انکشاف ہوگیا کہ میری دوستی اور ان کا ایمان ایک ساتھ بالکل نہیں چل سکتے۔
ایک اور خاتون بھی ہماری طرح غیرت کے ٹھیکیداروں سے خائف رہا کرتی تھیں لیکن ان کی کچھ حد تک باتیں ٹھیک بھی لگتی تھیں۔ مثال کے طور پہ ایک دن جب میں نے جینز اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی تو ان کا خیال تھا مجھے ان کپڑوں میں کوئی اغوا کر کے لے جائے گا۔ کہتے ہیں:
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
پاکستان میں عورت سے بات کرنا یا عورت پہ بات کرنا، دونوں بہت گھمبیر مسئلے بن چکے ہیں۔ چاہے شرمین عبید ہو یا ماروی سرمد یا شیریں مزاری یا عظمیٰ بخاری۔ مد مقابل کوئی مولوی حمداللہ، کوئی مفتی نعیم، کوئی خواجہ آصف، کوئی بھی ایسا شخص بیٹھا ہوا ہوتا ہے جس کو عورت کی عزت کرنا تو کیا عورت سے بات کرنا بھی نہ آتا ہوگا۔ حیف کہ ٹی وی پہ اور سوشل میڈیا پہ یہ تمام مغلظات بکے جا رہے ہوتے ہیں اور پیمرا کے کان پہ جوں نہیں رینگتی۔
اس کی ایک اور دردناک مثال عورت کا غیرت کے نام پہ قتل ہے۔ یہ بھی کچھ ‘غم خوار’ لوگ ہوتے ہیں، جو بد قسمتی سے ان عورتوں کے گھر والے ہی ہوتے ہیں۔ ایک کیس میں تو ایک خاتون نے اپنی سگی بیٹی کو آگ لگا دی۔ صرف اس وجہ سے کہ اس لڑکی نے اپنی پسند سے شادی کر لی تھی۔ لاہور کی ایک اٹھارہ سالہ زینت رفیق کی ماں نے ثابت کر دیا کہ جب معاملہ غیرت کا ہو تو ہر انسان بھیڑیا بن سکتا ہے۔ یہ غیرت ہے کیا آخر؟ کونسی چڑیا ہے؟ کونسا حیوان ہے؟ کونسی ان دیکھی سیما ہے جو کسی سے محبت کر کے یا کسی سے شادی کر کے فی الفور دھچکے میں آ جاتی ہے۔ یہ کون سا قانون ہے جس کے عوض انسانی جان اتنی سستی ہو جاتی ہے؟ یہ کون سے جرگے ہیں جہاں انسانیت کا فیصلہ صرف مرد کے پاس ہے؟ اور یہ کونسی مائیں ہیں جنہوں نے اپنے لخت جگر تک کو مار ڈالنا ٹھیک سمجھا؟ محض غیرت کے لیے؟
دو دن پہلے فیصل آباد میں ایک حاملہ عورت کا قتل کر دیا گیا۔ اس نے اپنی پسند سے شادی کر لی تھی۔ اس کے خاوند کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ وہ عورت چار دن میں جنم دینے والی تھی۔ ایک پورا خاندان تباہ ہو برباد کر دیا گیا۔ نفرت کی مثال قائم کر دی گئی، اور ان کی غیرت بچ گئی۔ کہاں ہے یہ غیرت؟ کیا یہ عورت کے نام پہ گالیوں میں ہے؟ کیا یہ عورت کو تعلیم اور رزق کمانے کے حق نہ دینے میں ہے؟ کیا یہ عورت کو بدکردار سمجھنے میں ہے؟ آخر یہ غیرت کونسا جانور ہے؟ اور ہر تھوڑے دنوں بعد ہمارے پیارے، ہمارے دوست، ہمارے احباب کیوں آ کے ہمیں غیرت کا درس دیتے ہیں؟
پچھلے سال، یعنی 2015 میں، 939 عورتوں پہ جنسی تشدد ہوا۔ 279 عورتوں پہ گھریلو تشدد ہوا۔ 143 عورتوں پہ تیزاب پھینکا گیا۔ 833 عورتوں کو اغوا کیا گیا 777 عورتوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی۔ 2016 میں مارچ سے جون تک ہی 20 سے زائد ایسے ہی کیسز میڈیا پہ آئے ہیں۔ ایسے کیسز میں ایک سولہ سال کی بچی وہاڑی میں، مانسہرہ میں دو معصوم جانیں، ایک سترہ سال کی بچی لاہور میں، ایک اور نو عمر بچی اسلام آباد میں، ہری پور میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو۔ سیالکوٹ، ایبٹ آباد، بہاولپور، جیکب آباد، ملاکنڈ، اور مزید دو کیسز فیصل آباد میں۔ اور یہ وہ کیسز ہیں جو میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں، ایسے انگنت کیسز ہیں جو میڈیا اور پولیس کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔
ظلم کا حال دیکھئے، 2016 میں ایک عورت نے ایک شادی سے انکار کیا۔ اس کے رشتے دار نے اس پہ تیزاب پھینک دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک اور واقعہ میں ایک عورت کو زکوٰۃ دینے کا جھانسا دے کر گھر پر بلایا گیا اور پہ ایک امیر شخص اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کا گینگ ریپ کیا۔ مزید ظلم دیکھئے رواں برس جنوری میں ایک گینگ ریپ کا کیس میڈیا میں آیا۔ حملہ آوروں میں سے ایک شخص پاکستان مسلم لیگ نون کے یوتھ ونگ کا ممبر نکلا۔ مگر کچھ ہی عرصے میں معاملہ رفع دفع ہوگیا اور لڑکی نے اپنا بیان بھی بدل لیا۔ کچھ سال قبل ایک اور کیس کے موقع پر اسی طرح کا بیان پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے بھی دیا تھا۔
رواں برس میں ہی پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں خواتین کے ساتھ خوفناک حد تک بدسلوکی کی ویڈیو منظر عام پہ آئی۔ عمران خان نے معافی مانگی مگر معاملے کا حل ڈھونڈنے کی بجائے تمام قصور مسلم لیگ نون پہ ڈال دیا۔ پچھلے سال الطاف حسین نے شیریں مزاری کے خلاف نہایت نازیبا کلمات کا استعمال کیا پھر کسی ٹی وی انٹرویو میں براہ راست معافی مانگی۔ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کے سیشن کے دوران شیریں مزاری کو نازیبا جملوں کا نشانہ بنایا۔ اور بعد میں تحریری معافی مانگی۔
ان مرد حضرات سے میرا صرف اتنا سا سوال ہے کہ آپ لوگ لیڈر تو بہت شوق سے بن جاتے ہیں۔ آپ سب کی رہنمائی کا دعویٰ تو فٹافٹ کر دیتے ہیں مگر پاکستان میں موجود عورتوں کو زد و کوب کرنے کی روش میں کمی لانے میں آپ کا کیا کردار ہے؟ آخر ایسی بات کرتے ہی کیوں ہیں جس کے بعد معافی مانگنی پڑے؟ آخر آپ کے ذہنوں میں عورتوں کا اتنا کمزور تصور کیوں ہے؟ غیرت کے نام پہ قتل ہو یا پارلیمنٹ فلور پہ مد مقابل عورت کو گالی۔ سوشل میڈیا پہ بیٹھ کے عورتوں کی تذلیل ہو یا ٹی وی پروگرام پہ عورت کو ‘فاحشہ’ کہا جائے۔ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے کہ آپ کے نزدیک عورت محض ایک شے سے زیادہ کچھ نہیں۔ آپ زیادہ ذہین، آپ زیادہ طاقتور، آپ زیادہ سمجھدار، آپ فیصلہ کریں گے کہ عورت کو کس سے شادی کرنی چاہیے۔ آپ فیصلہ کریں گے کہ عورت کتنی کمزور ہے۔ آپ فیصلہ کریں گے کہ عورت سے کس طرح پیش آنا چاہیے۔ آپ فیصلہ کریں گے کہ عورت کیسے کپڑے پہنے تا کے آپ اس کو اپنی ہوس کا نشانہ نہ بنائیں۔ آپ فیصلہ کرینگے کہ غیرت بچانے کے لئے کتنی عورتوں کو قتل کرنا ہوگا۔ غیرت کی سولی پہ اور کتنی عورتیں ٹانگی جائیں گی۔ ماں بہن کی گالیاں دینا اور عورتوں کو ناپاک، کم عقل، جذباتی، جاہل سمجھنا کتنا درست ہے یہ بھی سب آپ فیصلہ کریں گے۔ آپ ہمارے ہم درد جو ہیں۔ ہمارا بھلا چاہتے ہیں۔ چاہے اس بھلے میں ہماری زندگی، ہماری عزت نفس، ہماری سوچ، ہماری شناخت، ہمارا سب مٹی میں مل جائے۔ شاید ہم ہی نہیں سمجھ پائے کہ اس دنیا میں رہ کر تو گالیاں ہی مقدر ہیں، غیرت کے نام پر مار کر سب احسان ہی تو کر رہے ہیں عورت پہ۔ ہمدرد جو ٹھہرے!