"سالہ ایک مچھر انسان کو ہیجڑا بنا دیتا ہے ” کیسے ؟ پڑھیئے تنویر خالد کی تحریر
ڈینگی سے بچاؤ کا پیغام صفائی نصف ایما ن ہے
تنو یر خا لد
یہ غالباً سا ل 1997کا قصہ ہے جب ’’با لی ووڈ ‘‘ کی ایک فلم ’’یسونت ‘‘ ریلیز ہو ئی ۔اس فلم میں نا نا پا ٹیکر کا ایک ڈائیلا گ ’’سالا ایک مچھر انسا ن کو ہیجڑا بنا دیتا ہے ‘‘ زبا ن زدِعام ہوا ۔یہ جملہ سن کر عمو ماً لوگ ہنسی سے لو ٹ پو ٹ ہو جا تے تھے ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعا لیٰ کی بنائی ہو ئی یہ چھو ٹی سی مخلو ق ازل سے نسل انسا نی کیلئے ’’مو ت ‘‘ کا سبب بنتی رہی ہے ۔اور تو اور خدائی کا دعویدار ’’نمرود ‘‘ ایک مچھر دما غ میں گھس جا نے سے تما م دعوے ، طمطراق ، جا ہ و جلا ل اور با دشا ہی بھو ل بیٹھا تھا ۔اور سر میں پڑنے والے ’’جو توں ‘‘ کے تسلسل میں طما نیت اور پنا ہ ڈھو نڈتا تھا۔نمرود کے دما غ میں مچھر گھسنے کا یہ واقعہ اردو ادب کو ایک خو بصورت اور با معنی محا ورہ ’’ مچھر گھسے دما غ میں ‘ جو تے لگیں نمرود کو ‘‘ تشکیل دینے کا با عث بنا ۔مچھر اور نمرود کا یہ قصہ خدائی کے جھوٹے دعو یداروں ، صراط مستقیم سے بھٹکنے والو ں ، طا قت کے گھمنڈ میں ظلم و جبر اور قتل و غا رت گر ی کر نیوالوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے کہ اللہ تبا رک وتعالیٰ جب چا ہتا ہے اپنی حقیر سی مخلوق کی ایک چھو ٹی سی اکا ئی سے سب کس بل نکا ل دیتا ہے پھر ذلت و رسوائی ایسے لو گو ں کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔اور اگر وہ اس کے با وجو د اس سے سبق حا صل نہ کر یں تو پھر خو ف اورموت کے لا متنا ہی سا ئے ان پر مسلط کر دیئے جا تے ہیں ۔
جب کسی فرد گر وہ یا قوم کا ایما ن اور ایقا ن متنر لزل ہو جا ئے اور لوگ ایک دوسرے کا استحصال کر نے لگیں ۔انسا نیت کا احترام اٹھ جا ئے۔عدل و انصاف کی بجا ئے اقربا ء پر وری ، اقر با ء نوازی ، رشوت اور سفارش حقداروں کو حق سے محروم کر دے ، بے حیا ئی و بے را ہروی شرافت کے معیا ر گردانے جا ئیں ، کر دار کی بجا ئے دولت میں انسا ن کو تو لا جا نے لگے پھرانسا ن کو سبق سکھا نے کیلئے مثبت ایزدی سے اللہ تبا رک وتعالیٰ کی پیداکر دہ مخلو قات متحرک ہو تی ہیں ۔کبھی مچھر ’’ملریا ‘‘کا رو پ دھا ر لیتا ہے تو کبھی ڈینگی بخا ر کے لبا دے میں مو ت با نٹنے لگتا ہے۔کبھی مکھی ’’ہیضہ ‘‘ بن کر وار کر تی ہے تو ’’چو ہے ‘‘طا عون سے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں ۔کہیں چھو ٹا سا نظروں سے اوجھل خو ردبین پر دکھا ئی دینے والے وائر س اور بیکٹر یا عفریت کا رو پ دھا ر لیتے ہیں ۔کہیں ’’پو لیو ‘‘ عذاب بن جا تا ہے ۔کہیں خسرہ جا ن لیوا ثا بت ہوتا ہے ۔کبھی لا علا ج کینسر اپنے پنچے گا ڑ لیتا تو کبھی کا لا یر قا ن وبالِ جا ن بن جا تا ہے یا پھر بلڈ پر یشر (انتشا رِو فشا رِ خون )دل کا دورہ کر واتے ہو ئے اگلی ابدی منرل کی طرف روانہ کر دیتا ہے ۔غرض ان گنت بیما ریا ں ہیں جن کا سبب اللہ کی یہ چھو ٹی چھو ٹی مخلو ق بنتی ہے ۔مگر ہم پھربھی نہیں سیکھتے ، ہم پھر بھی نہیں سنبھلتے ۔
نمرود کو چھٹی کا دودھ یا د کر ادینے والی اس مخلوق ( مچھر ) کے غیض غضب اور عتا ب کا مظا ہر ہ ہم 2011میں دیکھ چکے ہیں جب وطن عزیز پا کستا ن میں ڈینگی مچھر نے ہزاروں خا ندانوں کو ان کے سینکٹروں پیا روں سے محروم کر دیا اور اپنی نو کیلی کا ٹ سے تہہ خاک جا سلایا ۔اس وقت پا کستا ن کے ہرشہر ، قصبے اور گلی کو چے میں ’’خوف ‘‘ کی ایسی فضا مسلط تھی کہ ہر فرد کو مو ت اپنے سر پر منڈلا تی محسوس ہو تی تھی ۔بقول منو ر عزیز
اِدھر اُدھر ہر طرف کھڑے خو ف کے سپا ہی
درونِ شہرِ نظر فقط سر خ بتیا ں ہیں
یہ اک ایسی فضا تھی کہ جس سے بنر دآزما ء ہو نے کیلئے حکو مت نے’’ ڈینگی سے ڈرنے کی نہیں بلکہ لڑنے کی ضرورت ہے‘‘ کا نعرہ مستا نہ بلند کیا اور پھر عملی طور پر حکو مت اور عوام ’’ڈینگی مچھر ‘‘ کے خلا ف بر سرِ پیکار نظرآئے ۔حکو مت پنجا ب کے بروقت اقدا ما ت ، عوامی آگہی مہم ، احتیاطی تدابیر ، علا ج معالجہ کی سہو لتوں میں اضا فہ اور دیگر اقدا ما ت سے اللہ کے فضل سے ڈینگی سے ہو نیوالی اموات میں بتدریج کمی آنے لگی اور حکو متی اداروں کی کئی سال کی مسلسل کا وش سے کسی حد تک ڈینگی کیخلا ف اس جنگ میں حکو مت کو کا میا بی حا صل ہو ئی مگر ’’مچھر اور انسا ن ‘‘کی اس جنگ میں یہ ’’ انسا نی جیت ‘‘ مستقل نہیں ہے ۔اس
سے دائمی چھٹکارے کیلئے حکو متی اقدا ما ت کے علا وہ بحثیت مسلما ن ہمیں اپنے ثئیں بھی کچھ کر نے کی ضرورت ہے ۔
ہم کیا کر یں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا مسلمہ جواب تعلیما ت اسلا می پر عمل پیرا ہو نے سے مشروط ہے ۔الحمداللہ ہم مسلما ن ہیں اور ہم پر لا زم ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی اور معا شرتی بداعمالیوں پر قابو پا ئیں اور’’صفائی نصف ایما ن ہے‘‘ کے فر ما ن کو دل و جا ن سے اپنا ئیں ۔ہما را لمیہ یہ ہے کہ ہم دینِ فطرت کے اس ابدی پیغام کو فرامو ش کر چکے ہیں اور ’’نصف ایما ن ‘‘ کی تکمیل سے پہلو تہی کر تے ہیں ۔ہمیں رو حا نی ، بدنی اور ذاتی صفائی کے سا تھ ساتھ اپنے گھر ، دکا ن ، دفتر ، گلی ،محلہ ، با زار اور اداروں میں صفائی کو اوّ لیت دینی چا ہیے میرا کا مل ایما ن ہے بلکہ ہم سب کا ہے کہ اگر دین اسلا م کے بتا ئے ہو ئے اصولوں کے مطا بق ’’صفائی ‘‘ پر تو جہ دیں تو مچھر ، مکھی ، چو ہے ،وائر س ، بیکٹریا یا ضررساں حشرات سے نہ صرف محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ ہر قسمی متعدی اور وبا ئی امراض سے بھی مکمل طور پر محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ صحت مند معا شرہ کی تشکیل میں حکو مت تن تنہا کچھ نہیں کر سکتی اس کیلئے عوامی اشتراک اشد ضروری ہے ۔حکو مت وسا ئل مہیا کر رہی ہے ۔آگہی فراہم کر رہی ہے ۔علا ج معا لجہ کی سہو لتیں فراہم کر رہی ہے ۔اپنے گھر ، اپنی ذات اور ارد گرد کے ما حو ل کو صاف ستھرا کر نے کیلئے ہمیں خو د کمربا ندھنا ہو گی ۔یہی حقیقت ہے اسے تسلیم کر نا چا ہیے اور اسی پر عمل پیر اہو نے کی ضرورت ہے کیو نکہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں