عورت کی کارآمد حیا اور بے کار حیات ………. تحریر . مہوش بدر
گذشتہ روز ہم ٹی وی کے ایک ڈرامے کی جھلک دیکھی۔ ’لڑکیوں کی قیمت تو ان کی حیا ہوتی ہے بیٹا۔ بے حیا تو کوڑیوں میں بکتی ہیں۔ ‘
یہ مکالمہ تھا ایک والدہ کا ایک بیٹی سے جو اپنی بیٹی کو طلاق اور حلالہ کے مشورے دے رہی تھیں۔ ڈرامے کی کہانی اور اس میں موجود کرداروں کے مسائل پہ تو خیر کبھی اور بات کی جائے گی، مگر کتنی عجیب بات ہے کہ یہ مکالمہ اور اس مکالمے کی مماثلت رکھنے والے کئی اور مکالمے ہم سب نے بہت سن رکھے ہیں۔ ‘بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔’ ‘بیٹیاں حیاء کی صورت ہوتی ہیں۔’ ‘عورت گھر کی عزت ہوتی ہے۔’ وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام باتوں میں ایک بات یکساں ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ عورت ایک ‘چیز’ ہے۔ اور اس ‘چیز’ کی قیمت مرد کی صوابدید پہ ہے۔ یہ حیاء وہی چیز ہے جو مرد طے کرتا ہے۔ مرد بتاتا ہے کہ جس معاشرے میں وہ ہی سب سے زیادہ طاقتور ہے، اس میں کونسی حدود ہیں جن کو عورت پار نہیں کر سکتی۔ کیا پارسائی ہے اور کیا فحاشی۔ یہ بھی کہ سمجھنے اور سمجھنے کی خود مختارانہ صلاحیتیں بھی تمام کی تمام تر مرد کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر وہ بغیر بنیان کے سڑک پہ کرکٹ کھیلے تو وہ ‘چیتا’ ہے۔ اگر عورت کسی کھیل کا شوق ہی رکھ لے تو دہائی مچ جائے۔ اگر مرد شادی کرے تو اسے اور اس کے گھر والوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب اس کا کوئی خیال رکھ سکے گا۔ مگر عورت شادی کرے تو اس کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اب اس کا کام ‘قربانی’ دینا ہے۔ اور اب اس گھر کی ‘عزت’ اس کے ہاتھ میں۔ لہٰذا وہ ہر طرح کی سوچ بچار کے بعد کوئی قدم اٹھائے۔ اگر کوئی اسے کچھ کہے جو اسے برا لگے تو وہ خاموشی سے برداشت کرے۔ کیونکہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔ ویسے بھی عورت کا جنازہ نکلنا چاہیے سسرال سے۔
جہاں پاکستان میں ہم ٹی وی عورت کو کوڑیوں کے بھاؤ لگانے کی بات کر رہا ہے۔ وہاں دوسری جانب بے غیرت مغرب کے ایک بے غیرت جریدے فوربز نے ایک بہت ہی بے غیرت کالم شائع کیا۔ اس میں لکھا تھا کہ گھر پہ رہنے والی ایک ماں کے سارے دن کے کام کاج کا اگر تخمینہ لگایا جائے تو امریکا کی کرنسی کے مطابق ہر عورت کو ہر سال تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار ڈالر ملنا چاہیے۔ 1,20,54,875 پاکستانی روپیہ۔ ایک گھر پہ رہنے والی ماں اگر خانسامہ، ڈرائیور، آیا، منیجر، صفائی ستھرائی اور پورے گھر کے اخراجات کو سنبھالنے کی ذمہ دار ہو۔ تو یہ ہے اس کا سال بھر کا معاوضہ۔ چلیں وہ بھی چھوڑیں۔ ایک ماں جب ایک بچہ اپنے پیٹ میں پالتی ہے۔ راتوں کو جاگتی ہے۔ ایک بلا کے کرب سے گزر کر اس کو جنم دیتی ہے۔ اس کا معاوضہ کیا کوئی طے کر سکتا ہے؟
خوشخبری یہ ہے کہ جنازے ہی نکل رہے ہیں۔ حیرانگی اس بات پہ ہے کہ جنازے تو میکے سے بھی نکل رہے ہیں۔ یعنی عورت کا قتل ہو رہا ہے۔ مگر زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ملک بھی عورت کے سسرال کی طرح ہے۔ اس کے بارے میں زیادہ برائیاں کرنے سے اس کی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اور اس خطرے سے چوبیس گھنٹے کھیلنا ہی عورت کا مشغلہ ہے۔ خبردار جو زیادہ شور مچایا۔ خبردار جو زیادہ زبان درازی کی۔ خبردار جو ہر کسی کو اپنے مسائل بتانے کی ہمت کی۔ تمہیں پتا نہیں؟ صبر کرو۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ چلو دنیا میں نہ سہی جنت میں مل جائے گا پھل۔ تب تم پھل کھانا۔ فی الحال جوتا کھاؤ۔
پاکستانی عورت کسی حال میں بھی خوش نہیں ہے۔ اس کا مسئلہ کیا ہے۔ تو کیا ہوا قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پہ قتل کر دیا اس کے بھائی نے۔ ارے بھائی وہ کوئی بیونسے ناولز تھوڑی ہی تھی۔ جو اپنے گانوں اور اپنے ڈانس کی وجہ سے آج 450 ملین ڈالرز سے اوپر کی مالیت رکھتی ہے۔ اور اسے کم کارڈیشین سے ملانے والے لوگ بھی یاد رکھیں کہ پاکستان میں اس طرح کی حرکتوں کا انجام ذلت اور موت کے درمیان ایک ہیبت ناک محاذ ہے۔ یہاں صرف مذاق نہیں اڑایا جاتا، جان سے مار دیا جاتا ہے۔
اس کو عزت بھی دی جاتی ہے تو بھی اس پاکستانی عورت کو راس نہیں آتی۔ آخر پچھلے سال کتنے عزت دار بھائیوں اور باپوں نے مل کے کتنی بے حیا بیٹیوں اور بہنوں کا قتل کر دیا تاکہ وہ مزید گناہ کا ارتکاب نہ کر سکیں۔ ہزار ڈیڑھ ہزار عورتیں تو ہر سال آرام سے اس غیرت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ہاں البتہ لاکھوں لڑکیوں میں سے کوئی اگر ایک قندیل بن جائے۔اپنی مرضی کے کپڑے زیب تن کرے۔ اپنی مرضی کی باتیں کرے۔ سوشل میڈیا پہ وہ سب کچھ کہے جو اس کا دل چاہتا ہے۔۔۔ تو اس پہ پوری قوم کا ضمیر جاگ جاتا ہے۔
عورت کی اوقات اور اس کی قیمت یہی تو ہے۔ ایک جھوٹی عزت کا فسانہ جو اس کی قسمت میں لکھ دیا جاتا ہے۔ ایک بھاری بھرکم غیرت کا طوق جو اس کے پیدا ہونے سے لے کے اس کے مرنے تک اس کے گلے میں لٹکتا ہے۔ ایک سونے کی مہنگی زنجیر جو کبھی اس کے پاؤں میں تو کبھی اس کے ہاتھوں میں اس کی زبان بندی کی قیمت بنا کر اس کو بہت پیار اور لاڈ سے پہنائی جاتی ہے۔ پھر جب وو اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے۔ ’تم کچھ کرتی کیوں نہیں اپنی زندگی کے ساتھ؟‘