جناب ظفرخان نیازی کی خاص تحریر ” گائے کے نام پر پھانسی . ہم ایک جیسے ہیں
گائے کے نام پر پهانسی
ھم ایک جیسے هیں ؟
یہ پچهلے جمعے کے دن کا واقعہ ھے – جهاڑکهنڈ بھارت کے ایک ضلع میں یہ دو مسلمان ایک درخت سے لٹکتے مردہ حالت میں پائے گئے – دائیں طرف والے کا نام مظلوم انصاری اور بائیں طرف ایک نوعمر لڑکا امتیاز خان ھے – دونوں مویشیوں کا کاروبار کرتے تھے اور قریب کے کسی ضلع میں میلہ مویشیاں میں شرکت کیلئے جا رھے تھے – ھندو انتہا پسندوں کے ہتهے چڑھ گئے اور گائے ذبح کرنے کے شک میں دونوں اس عبرتناک انجام کو پہنچے – یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں – اس سے پہلے کئی ایسے واقعات ھو چکے ہیں اور ایک جگہ پر تو صرف شک کی بنیاد پر ہی ایک ایسے مسلم کے والد کو ہندو شدت پسندوں نے قتل کردیا جو بھارت ماتا کے دفاع ادارے میں ملازم ھے –
ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو سلام –
ادهر تو اپنے باپ کو قتل کرنے والی ایک لڑکی کی مصالحے دار خبر اور تھانے سے اس کی گفتگو تو سنا دی لیکن درخت پر جهول جانے والے ان مسمانوں کی خبر ان کیلئے اس لئے اهم نہیں کہ اس طرح بھارت سے ھمارے تعلقات پر شاید منفی اثر پڑتا ھے –
وہاں بهارت میں کوئی شرمین بھی نہیں جو اس موضوع پر ڈاکومنٹری بنا کر دنیا بهر میں نام کمائے اور آسکر ایوارڈ حاصل کرے –
لیکن میرے ذہن میں اس وقت سوال کچھ اور ھے –
کچھ عرصہ پہلے میں نے وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف کی ایک بہت جذباتی سی تقریر سنی تهی جس میں وہ کہہ رھے تھے کہ ھمارے درمیان سرحد ایک لکیر ھی تو ھے ورنہ ھم میں فرق تو کسی چیز کا نہیں – ھم ایک جیسا کھاتے ہیں ، ایک طرح سے سوچتے ہیں – ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں وہ بھی –
وہ تقریر تو لمبی ھے – لیکن باقی باتیں دہرانے سے میرا سوال رہ جائے گا – یہ سوال اس لئے بهی اهم ھے کہ جناب نواز شریف صرف وزیر اعظم پاکستان ہی نہیں ، اس مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں جو قائد اعظم کے سیاسی ورثے کی دعوے دار ھے –
خود قائد اعظم سے دھرم کے پالن ایک ہندو نیتا نےکیا سلوک کیا – سنا تو آپ نے پہلے بهی هوگا ، چلئیے ، پهر دہرا لیتے ہیں – ایک بار قائد اعظم ایک ہندو نیتا کو ملنے گئے – اپنے دھرم کے پکے نیتا نے اپنے مہمان کی چائے وغیرہ سے سیوا تو کی لیکن بعد میں جس ٹی سیٹ سے چائے سرو کی گئی تھی ، وہ پھینکوا دیا کیونکہ اس کے دھرم کے مطابق وہ برتن ایک مسلمان کے چھو لینے سے بهرشٹ یعنی پلید ھوگئے تھے –
آج کی نسل کو یہ بهی معلوم نہیں ھے کہ پاکستان بننے سے پہلے کئی ھندو دکاندار مسمان گاہک سے براہ راست پیسے نہیں لیتے تھے بلکہ پانی کا ایک برتن پڑا ھوتا تھا – گاہک کو سودے کے پیسے اس برتن میں ڈالنے پڑتے تھے – ان دنوں سودے کیلئے چاندی کے روپئے اور دیگر ریزگاری چلتی تھی – نفرتوں کی باتیں یاد رکهنے اور دہرانے سے نفرتیں ہی بڑھتی ہیں ، لیکن تلخ حقیقتوں کا کیا کیجئے – کیا واقعی ھم ایک جیسے ہیں – ہندو شاید آلو گوشت کھاتے ہوں ، لیکن محترم نواز شریف صاحب آپ کبھی مودی صاحب کو اپنی پسند کی ڈش یعنی پائے تو کھلا کر دیکهیں – اور یہ بات تو آپ سے زیادہ کون بہتر جانتا ھے کہ پائے سب سے لذیذ گائے کے ھوتے ہیں – ایک دفعہ مودی جی کو گائے کے پائے کی زبانی دعوت ہی دے کر دیکهیں – پھر آپ کو اندازہ ھو جائے گا ھم کتنے ایک جیسے هیں –
اس پوسٹ پر ڈاکٹر حمید نیازی جو امریکہ میں ڈاکٹر ہیں ، سنجیدہ موضوعات پر اپنی رائے رکھتے اور اظہار بھی کرتے ہیں ، کہتے ہیں —
"دونوں ملکوں میں شدت پسند ہیں یہاں بھی کچھ شیو سینائی ذہن والے مینار پاکستان کو دھونے پہنچ گئے تھے باجپائی دورے کے بعد جیسے بھرشٹ ہو گیا ہو- ان دونوں اطراف کے انتہاپسندوں کا بس چلے تو ابھی جنگ چھیڑ دیں – مودی ہو یا منور حسن ایک سکے کے دو رخ ہیں”
اس کے جواب میں میری عرض ھے
کہ میرا سوال منور حسنوں سے نہیں ، ان کو ہم اپنے لڑکپن سے بھگتتے آرهے ہیں – اور جتنے غیر موثر وہ اب هوئے ہیں ، اپنی ساری زندگی میں نہیں تهے – وہ یہاں ووٹ کے ذریعے آگے نییں آسکے جبکہ بهارت میں مودی ووٹ کے ذریعے آیا هے –
میرا سوال سنجیدہ طبقے سے ھے کہ کیا واقعی ھم ایک جیسے ہیں اور درمیان میں خواہ مخواہ کی لکیر ڈال دی گئی ھے –
اس عرض کے جواب میں حمید نیازی کہتے ہیں —
"سر میرے ساتھ کئی ہندو کام کرتے ہیں جو ہر طرح کا گوشت کھاتے ہیں کسی بھی قوم میں پائے جانے والے تنوع کو نظر انداز نہیں کر سکتے مودی متعصب ہے تو انڈیا کے ہی کئی مسلم سکھ ہندو ادیبوں نے اپنے اعلی اعزازات احتجاجا واپس کر دیے ہیں وہیں جے این یو میں ایک ہندو لڑکا طلبا یونین کے پلیٹ فارم سے ریاستی طاقت کے خلاف کھڑا ہو گیا دونوں طرف اختلاف کے بھی بہت پہلو ہیں اور اتفاق کے بھی ، یہ ہماری مرضی ہے ہم زور کس پر دیتے ہیں”
جس پر میرا خیال ھے
محترم آپ میرے نکتے کو نہیں سن رھے –
مودی صاحب ووٹ کی اکثریت سے آگے آئے ہیں – جس طرح آپ کے ساتھ کئی ہندو گائے کا گوشت کهالیتے ہیں ، ہمارے کئی مسلمان بھائی شراب تو عام سی بات ھے ، باقی دنیا میں سور بھی کها لیتے ہیں لیکن وہ ہندو یا وہ مسلمان اپنی اپنی قوموں کے نمائندے نہیں – بات اکثریت کی کی جاتی ھے – آج کل بھارت میں گائے ماتا کے نام پر یہ سلسلہ عام ھے – سوال یہ ھے کیا ھم ایک جیسے ہیں اور لکیر فالتو کھنچ گئی ھے ؟
میرے بہت محترم دوست ظہیر جاوید جو ٹی وی کنٹرولر (ریٹائرڈ )صحافی شاعر و دانشور هیں اور ایک مضبوط حوالہ ان کا یہ بھی ھے کہ وہ پاکستانی صحافت کے تاریخی ستون جناب چراغ حسن حسرت کے صاحبزادے هیں ، کہتے ہیں – قائد اعظم نے کہا تھا ، ھم گائے کا گوشت کھاتے ہیں ، جبکہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں ، ھم ایک کیسے ھو سکتے ہیں —
اور ہندو اور مسلم کا فرق ، کشمیر نزاد ظہیر جاوید سے زیادہ کس کو معلوم هوگا جس کا دادا یعنی چراغ حسن حسرت مرحوم کے والد کشمیری چند سولہ برس کی عمر میںاپنا آبائی ہندو دھرم چهوڑ کر کشمیری چند سے بدر الدین بدر ھو گئے تھے اور اسلام کی دولت کیلئے اپنا آبائی علاقہ کهوئی رٹہ چهوڑ کر دس برس تک سوات میں جلا وطن رھے تھے اور جب لوٹے تو حافظ قرآن تھے –
اس رائے پر بہت شکریہ ظہیر بهاء – آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے دادا جان کا قصہ لکھ دیا ھے – امید ھے آپ میری بات کی تصدیق کریں گے –
شاعر و دانشور عزیزم منصور آفاق کا نام اور کام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا – ان کی رائے ھے —
” ظفر بھائی ۔ آج کل پاکستانی حکومت سیکولر بننے کی تگ و دو میں ہے۔ مذہب کے نام پر بنائے ملک سے مذہب کی بنیاد نکالنا کی کوشش بہت ہولناک ہوسکتی ہے
میرا ایمان ھے کہ پاکستان کی بنیاد لاکھوں شہیدوں کے لہو اور کروڑوں لوگوں کے آبائی گهروں سے ھجرت کی قربانیوں پر رکھی ھے اور یہ بنیاد اتنی مضبوط ھے کہ اب کوئی حادثہ اس کیلئے ھولناک نہیں ھوتا ، اس کی بنیاد کھوکھلی کرنے والوں کیلئے البتہ ضرور ایسا ھوتا ھے – میرے خیال کا ثبوت ، پاکستان کے ساتھ ماضی میں برا سلوک کرنے والوں کے انجام کی شکل میں آپ کے سامنے ھے –
واللہ اعلم بالصواب
—-