کیا نقشہ مقدس ہے .. آوٹ لُک انڈیا سے وابستہ صحافی ارون دھتی رائے کا مضمون
آخر کشمیریوں کے لئے آزادی کے کیا معنی ہیں؟ اس پر بات کیوں نہیں کی جاسکتی؟ آخر نقشے کب سے مقدس ہو گئے؟
کشمیر کے لوگوں نے پھر سے واضح کر دیا ہے، جیسا کہ وہ سال در سال، عشرہ در عشرہ، قبر در قبر کرتے آئے ہیں، کہ وہ آزادی چاہتے ہیں۔ مگر لوگوں سے یہاں مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو آرمی کی بندوقوں کے سائے تلے الیکشن جیتتے آئے ہیں۔ اس سے مراد وہ لیڈر بھی نہیں ہیں جنہیں مشکل وقتوں میں اپنے گھروں میں منہ چھپانا پڑتا ہے۔
جب ہم مذمت کرتے ہیں، اور ہمیں کرنا بھی چاہئے؛ نہتے احتجاج کرنے والوں پر سکیورٹی فورسز کے گولیاں برسانے کی، ایمبولینسز اور ہسپتالوں پر پولیس کے حملوں کی، اور نوجوانوں کو چھروں سے اندھا کرنے کی تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اصل مسئلہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیر کی وادی میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہے۔ یہ خلاف ورزیاں کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں دراصل یہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو فوجی جارحیت کی مدد سے کچلنے کا لازمی اور ناگزیر نتیجہ ہیں۔ کشمیری قانون کی سر بلندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے لئے نہیں لڑ رہے ہیں۔ وہ آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اور اس کے لئے وہ گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے کو تیار ہیں۔ اس کے لئے وہ جانوں کا نذرانہ دینے کو بھی تیار ہیں۔ اس کے لئے وہ دنیا کے سب سے گنجان فوجی زون میں سرکشی کی ایسی کھلی کارروائیوں کے لئے بھی تیار ہیں جس کا انجام ان کی موت یا قید کی صورت میں ہے۔ اور اس کے لئے وہ ہتھیار اٹھانے کے لئے بھی تیار ہیں، لڑتے لڑتے مرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ جوان موت مر جائیں گے۔ انہوں نے یہ سب المناک ثابت قدمی سے کر کے دکھایا ہے۔ سوائے استقلال کے وہ ہیں ہی کچھ نہیں۔
یہ دکھاوا کرنے سے کام نہیں چلے گا کہ ہندوستانی حکومت کو امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا سامنا ہے جو وقفے وقفے سے چند بددماغ باغی پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک صورت حال ہے، یہ مسلسل دائروں میں چکر کھاتا اور قابو سے نکلتا ہوا بحران ہے جو ایسے خطے میں پھل پھول رہا ہے جو دو دشمن نیوکلیائی طاقتوں کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔ ایک یہی وجہ ساری دنیا میں فکر پیدا کرنے کے لئے کافی ہونی چاہئے۔
اگر ہم واقعی میں اس بحران کا حل چاہتے ہیں، اگر ہم واقعی میں مرنے اور مارنے کا یہ تھکا دینے والا سلسلہ ختم کرنا چاہتے ہیں اور اگر ہم واقعی میں چاہتے ہیں کہ بہتے ہوئے خون کو روکا جائے تو ہمیں سچ کو موقع دینا ہوگا، ہمیں ایک دیانتدارانہ مکالمے کی ضرورت ہے۔ طرفین کے مابین کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو، ان کے خیالات ایک دوسرے سے کتنے ہی متصادم کیوں نہ ہوں، مگر بحث کا موضوع صرف آزادی ہونا چاہئے: آخر آزادی کشمیریوں کے لئے کیا معنی رکھتی ہیں، آخر اس پر مکالمہ کیا ہی کیوں جائے؟ آخر یہ نقشے کب سے مقدس ٹھہرے؟ کیا کسی کے حق خود ارادیت سے کسی بھی صورت میں انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہندوستان کے لوگ اپنے ضمیر پر ہزاروں عام لوگوں کے خون کا بوجھ اٹھانے پر تیار ہیں؟ ہم اپنے پر آنے والی باقی تمام مشکلات پر کس اخلاقی جواز کے ساتھ بات کر سکتے ہیں جب کہ ہم اس ظلم پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں؟ کیا کشمیر کے بارے میں ہمارا مزعومہ ‘اتفاق رائے’ اصل ہے یا مصنوعی؟ کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ سچ یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو بات معنی رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ اور یہ کہ اتفاق رائے پر پہنچنے کا سب سے پر امن، جمہوری اور باخبر طریقہ کار کیا ہے؟
اگر اس دردناک اور نہ ختم ہونے والے المیہ کا کوئی حل ہے تو وہ شفاف سوچنے کی قابلیت، آزادی سے بولنے اور بغیر کسی ڈر اور خوف کے وہ کچھ غور سے سننے میں ہے جسے ہم سننا نہیں چاہتے۔ ہمیں نئے تصورات جنم دینے ہوں گے۔ اور یہ سب پر لاگو ہوتا ہے، جھگڑے کے تمام فریقین پر لاگو ہوتا ہے۔
اسی سے کچھ بہت خوبصورت جنم لے سکتا ہے۔ کیوں نہیں؟ آخر کیوں نہیں؟